پرویز مشرف کا خوف

449

سابق آمر جنرل پرویز مشرف کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) میں ڈالنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ای سی ایل میں ان لوگوں کا نام ڈالا جاتا ہے جن کو ملک سے باہر جانے سے روکنا ہو۔ پہلے پرویز مشرف کو آنے تو دیں تب کسی میں ہمت ہو تو ای سی ایل یا کسی بھی لسٹ میں نام ڈال دیں۔ ابھی تو پرویز مشرف کی واپسی کی افواہیں ہی چل رہی ہیں اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے تبصرہ کیا ہے کہ ان کی واپسی کی بات پر ہنسا ہی جاسکتا ہے۔ یعنی ان کو بھی امید نہیں کہ کمانڈو جنرل واپس آنے کی ہمت کرسکیں گے حالانکہ وہ نواز شریف کی طرح کسی معاہدے کے تحت باہر نہیں گئے بلکہ اپنی مرضی سے گئے ہیں۔ پورے اعزاز کے ساتھ رخصت ہوئے۔ پرویز مشرف واپس آتے ہیں یا نہیں لیکن انہوں نے ممکنہ واپسی پر اپنی حفاظت کی ضمانت ضرور طلب کی ہے۔ وزارت داخلہ اور عدلیہ انہیں سیکورٹی فراہم کرنے کی یقین دہانی کرارہی ہے اور چونکہ وہ پاک فوج کے سربراہ رہ چکے ہیں اس لیے فوج بھی ان کی بھرپور حفاظت کرے گی مگر وہ آتو جائیں۔ ان کے خوف کو دیکھ کر ان کا مذاق اڑایا جارہاہے کہ یہ وہی ہیں جنہوں نے جنگوں میں حصہ لینے کا دعویٰ کیا تھا اور ان کا یادگار جملہ ہے کہ ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں ہوں‘‘۔ مگر اب ہر ایک سے ڈر رہے ہیں۔ جب کوئی وردی میں ہوتا ہے تو بے خوف ہوجاتا ہے خواہ تعلق فوج سے ہو یا پولیس یا قانون نافذ کرنے والے کسی اور ادارے سے۔ بدنام ایس ایس پی راؤ انوار بھی سرکاری اختیارات پر لوگوں کو قتل اور اغوا کرتا تھا۔ اختیار جس کسی کو مل جائے اور وہ آپے سے باہر نہ ہو تو بہت بڑی بات ہے۔ پرویز مشرف جب فوج کے سربراہ اور صدر مملکت کے طور پر ہمہ مقتدر تھے تو لوگوں کو مکے دکھایا کرتے تھے۔ اپنی وردی کو اپنی کھال قرار دیتے تھے اب کھال سے باہر ہیں تو اس ملک میں واپس آنے سے خوف زدہ ہیں جہاں وہ من مانیاں کرتے رہے ہیں۔ انہیں نیا سفارتی پاسپورٹ جاری کردیاگیا ہے جو پہلے پاسپورٹ کی مدت ختم ہونے سے پہلے ہی 5 سال کے لیے جاری کیا گیا ہے لیکن حیرت ہے کہ وزارت خارجہ اس سے لا علمی ظاہر کررہی ہے تو پھر یہ کس کی فرمائش پر جاری کیا گیا۔ اب پاکستانی پاسپورٹ کی بنیاد پر وہ مزید 5 سال باہر رہ سکیں گے۔ وزارت داخلہ نے عذر پیش کیا ہے کہ نیا پاسپورٹ اس لیے جاری کیا کہ کہیں وہ پاسپورٹ کی مدت ختم ہونے کو جواز بناکر پاکستان آنے سے انکار نہ کردیں۔ لیکن انہیں نہیں آنا ہوگا تو وہ کوئی بھی بہانہ بناسکتے ہیں۔ ابھی تو ان کے پاس اپنے لیے حفاظتی اقدامات کا عذر ہے اور وہ کبھی بھی اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرکے واپس آنے سے انکار کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بھی ماضی کے آمروں کی طرح مسلم لیگ کے نام پر ہاتھ صاف کیاہے اور کل پاکستان مسلم لیگ بناکر بیٹھ رہے ہیں۔ جو کہیں نظر نہیں آتی۔ حیرت ہے کہ اس پاکستان مسلم لیگ کا صدرپاکستان میں نہیں ہے جس طرح اردو بولنے والوں کی سرپرستی کا دعویدار برسوں سے لندن میں بیٹھا ہے اور جن کا نعرہ تھا کہ ہم کو منزل نہیں رہنما چاہیے، انہیں منزل ملی نہ رہنما۔ ایم کیو ایم پر جنرل پرویز کی محنت بھی رائیگاں گئی جو اس کے سرکشوں کو عوام کی طاقت قرار دیتے تھے۔ الطاف حسین تو پھر بھی کراچی پر قبضے کے لیے ہاتھ پیر ماررہے ہیں یا کچھ دوسرے ان کے نام پر کام دکھارہے ہیں لیکن پرویز مشرف تو کہیں کے نہیں رہے، ان کی سیاست اگر تھی بھی تو کہیں گم ہوگئی ہے، حد ہے کہ ایم کیو ایم بھی انہیں سر پر بٹھانے کو تیار نہیں جس کو انہوں نے کبھی کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ جنرل پرویز مشرف کئی مقدمات میں مفرور قرار دیے جاچکے ہیں۔ ان کو گزشتہ جنوری میں نیا پاسپورٹ جاری کیا گیا جب کہ ان کے پرانے پاسپورٹ کی مدت 16 مارچ کو ختم ہورہی تھی۔ وزارت داخلہ نے جو جواز پیش کیا ہے وہ اس لیے قابل قبول نہیں کہ اگر پرویز مشرف کی نیت واپس ہونے کی ہوتی تو وہ ان دو ماہ میں واپس آسکتے تھے۔ انہیں یہ خوف بھی ہوگا کہ کہیں ان کا نام ای سی ایل میں نہ ڈال دیا جائے۔ اگر وہ واپس آگئے تو امکان ہے کہ انہیں آسانی سے ضمانت مل جائے گی۔ انہیں خوف تو ان عناصر سے ہے جن کے ساتھ انہوں نے زیادتی کی ہے۔ لیکن کیا ایک مفرور شخص کو، جس پر غداری کا مقدمہ بھی چل رہا ہے، سفارتی (ڈپلومیٹک) پاسپورٹ جاری کرنا معقولیت ہے؟۔ بے شک بطور سابق صدر یہ ان کا استحقاق تھامگر اب تو وہ مجرم ہیں اور مفرور قرار دیے جاچکے ہیں۔ ابھی تو یہ عقدہ بھی وا نہیں ہوا کہ مجرم قرار دیے گئے ایک شخص کو ڈپلومیٹک پاسپورٹ کس کی ہدایت پر جاری کیا گیا۔ وزارت داخلہ بھی بے خبر ہے۔