آواز کا سحر

359

پاناما کیس میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے فارغ کرنے کے عدالتی فیصلے کو عالمی میڈیا نے بھی متنازع قرار دیا تھا۔ 2016ء میں انڈیا کے ایک معروف اخبار نے ایک تفصیلی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ پاناما کیس کی آڑ میں عدلیہ میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ سے فارغ کردے گی اور 2017ء میں میاں نواز شریف کو نااہل قرار دے کر وزارت عظمیٰ سے ہٹادیا گیا۔ یہ کیسی افسوس ناک صورت حال ہے کہ عالمی سطح پر ہمارے جسٹس صاحب کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ اپنی آواز کے سحر میں مبتلا ہیں، ان کے خیال میں ہماری عدالتوں کو ’’ٹاک شوز‘‘ کی طرح چلایا جارہا ہے۔ چیف جسٹس پاکستان میاں ثاقب نثار کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ ہارمونز سے پاک چکن کے خواہش مند ہیں مگر خواہش تو خواہش ہوئی۔ خواہش کو دانش مندی کی لگام نہ ڈالی جائے تو یہ سرکش گھوڑے کی طرح سوار کو پٹخ دیتی ہے کیوں کہ خواہش کو عملی صورت اختیار کرنے کے لیے عمل کی ضرورت ہوتی مگر المیہ یہ بھی ہے کہ لوگ اپنی ضروریات کو فوقیت دیتے ہیں۔ یوں ہر خواہش بے لگام ہوجاتی ہے جو قوم عمل سے گریز پائی کو اپنا وتیرا بنالیتی ہے۔ ایک معروف عالمی جریدے کے مطابق میاں نواز شریف کے بطور پارٹی صدر کیے گئے فیصلوں کو منسوخ کرنے کے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو متنازع قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ سینیٹ انتخابات میں ن لیگ کو نقصان پہنچانے کے لیے صوبائی اسمبلیوں میں ردوبدل کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی دکھائی دیتی ہے۔ برطانوی جریدے اکنامسٹ نے پاکستانی سیاست، سینیٹ انتخابات اور مسلم لیگ نواز کے ساتھ اعلیٰ عدلیہ اور اسٹیبشمنٹ کے رویے پر اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا ہے کہ کون سا جذبہ اور اس کا مقصد کیا ہے کہ مسلم لیگ نواز کے انتخابی نشان شیر کو ٹرک میں تبدیل کردیا ہے اور اس مقصد کے پیچھے کون ہے؟ الیکشن کمیشن کے یہ اقدام سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اٹھایا گیا ہے۔
وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے پر نواز لیگ ہی نہیں ساری دنیا میں سیاسی شخصیات نے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ موصوف ابھی تک مشرف فوبیا میں مبتلا ہیں اور جھوٹ پر جھوٹ بولے چلے جارہے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ جنرل پرویز مشرف توہین عدالت کے سب سے بڑے مرتکب ہوئے ہیں اگر عدالت اپنا وقار اور اپنا رعب و دبدبہ قائم رکھنا چاہتی ہے تو نہال ہاشمی کی طرح جنرل پرویز مشرف کو بھی جیل میں ڈال دیاجائے۔ احسن اقبال کی خواہش ہے کہ جس دن عدالت عظمیٰ جنرل پرویز کو طلب کرکے پولیس کو یہ حکم صادر کرے گی کہ اس آمر اور آئین شکن کو اڈیالہ جیل میں ڈال دو تو وہ یقین کرلیں گے کہ ہماری سپریم کورٹ آزاد ہے، مگر وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اڈیالہ جیل کے در و دیوار تو کسی اور کا انتظار کررہے ہیں؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ اڈیالہ جیل کس کو خوش آمدید کہنے کے لیے بے تاب ہے؟ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ پاناما کیس میں عدلیہ کو کچھ نہ ملا تو اس نے اقامہ کا آزار بند میاں نواز شریف کے گلے میں ڈال دیا۔ سعد رفیق کا کہنا ہے کہ میاں نواز شریف نے عدلیہ کی بحالی کے لیے جو جدوجہد کی ہے وہ ایک تاریخی کارنامہ ہے۔ واقعی! عدلیہ بحال کی گئی ہے، ہرگز نہیں! بلکہ تاریخ یہ بتائے گی کہ عدلیہ بحالی کی آڑ میں چیف جسٹس چودھری افتخار کو بحال کرانے کے لیے ایک شرم ناک سازش کی گئی تھی۔ خواجہ صاحب نے انکشاف فرمایا ہے کہ نواز لیگ عدلیہ اور فوج پر تنقید نہیں کرتی کیوں کہ یہ فعل قابل قبول نہیں، ہم تو صرف دل کی بھڑاس نکالتے ہیں ورنہ۔۔۔ ہمارے کہنے سے ججوں کو نکالا نہیں جاسکتا۔ اسی طرح میاں نواز ریف کو کسی کے کہنے سے سیاست سے بے دخل نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی سیاست دان کو فارغ کرنا عوام کا اختیار ہے اور عوام کا فیصلہ اتنا اہم اور اٹل ہوتا ہے جو اپیل در اپیل کے بعد بھی برقرار رہتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ عدلیہ بحالی کی تحریک کا مقصد چیف جسٹس چودھری افتخار کو بحال کرانا تھا اور تحریک وکلا نے نہیں عوام نے چلائی تھی اور اب میاں نواز شریف نے تحریک عدل چلائی تو واقعی! عدل بحال ہوگا کوئی چیف جسٹس نہیں۔