پاکستان اور امریکا کے درمیان کثیر الجہتی اختلافات ہیں جن میں سرفہرست افغانستان ہے۔ جس کے بعد ایٹمی صلاحیت، میزائل سازی، سی پیک، بھارت سے تعلقات اور پاکستان کی تیز رفتار سیکولرائزیشن جیسے مسائل بھی موجود ہیں۔ پچھلے کچھ دنوں سے ایسے اشارے ملنا شروع ہوگئے تھے کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان اختلافات کی وسیع خلیج کچھ کم ہو رہی ہے۔ یوں لگ رہا تھا کہ امریکا نے پاکستان کے معاملات اور مسائل کو درست تناظر میں سمجھنا شروع کیا ہے۔ بنیادی طور پر ہر پاکستانی کی خواہش یہی رہی ہے کہ امریکا پاکستان کو بھارت کی عینک سے دیکھنے کے بجائے خود اپنی بنیاد پر دیکھے اور سمجھے۔ دونوں ملکوں میں تعلقات کے بگڑنے کا اصل آغاز بھی اسی وقت ہوا جب نائن الیون کے بعد امریکا نے پاکستان کو بھارت کے تناظر میں دیکھنا شروع کیا جو خالصتاً امریکا کی ضرورت تھی اور یہ تصور پاکستان کے قومی مفادات سے لگا نہیں کھاتا تھا۔ یہیں سے پاکستان اور امریکا کے دفاعی تصورات کی گاڑیوں نے دو متضاد سمتوں کی جانب دوڑنا شروع کیا اور یہ دوڑ اب تک جاری ہے۔
امریکی رویے میں تبدیلی کے کچھ اشارے اس وقت ملے تھے جب حال ہی میں امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی ایک سینئر اہل کار ایلس ویلز نے ایک انٹرویو میں یہ کہا تھا کہ افغانستان کے حوالے سے پاکستان کی کچھ شکایات جائز ہیں جن میں بارڈر مینجمنٹ، تحریک طالبان پاکستان، افغان مہاجرین کے معاملات شامل ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا پاکستان مخالف گروپوں کے خلاف بھی اقدامات اُٹھا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ہی امریکا نے تحریک طالبان پاکستان کے تین راہنماؤں کی اطلاع دینے پر انعام کا اعلان بھی کیا تھا۔ اسی تسلسل میں امریکا کی جانب سے یہ اعلان بھی سامنے آیا تھا کہ ہم سختی سے پاکستان کی علاقائی سالمیت کی حمایت کرتے ہیں۔ امریکا کی جانب سے واضح کیا گیا تھا کہ ہم بلوچ دراندازی کے حق میں ہیں اور نہ ہی اس تحریک کی تائید کرتے ہیں۔ پاکستان اور امریکا کے تعلقات کی موجودہ صورت حال میں یہ بہت مثبت پیش رفت اور اشارے تھے۔ یہ خوش گوار فضاء زیادہ تر برقرار نہ رہ سکی اور خوش گواریت کے اس رنگ میں اور ڈومور کی صدا نے دوبارہ بھنگ ڈال دیا۔ یہ ڈومور امریکا کے دورے پر گئے ہوئے شاہد خاقان عباسی کے کان میں کہا گیا۔ پاکستان کی طرف سے اس ملاقات کی تفصیل تو بیان نہیں ہوئی البتہ وائٹ ہاؤس کی طرف سے ملاقات کی جو جھلکیاں دنیا کو دکھائی گئی ہیں ان کے مطابق مائیکل پینس نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ پیغام شاہد خاقان عباسی تک پہنچایا کہ حکومت پاکستان کو اپنی سرزمین پر سرگرم طالبان، حقانی نیٹ ورک اور دیگر شدت پسند گروپوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی۔ امریکا کی خواہش ہے کہ پاکستان اس حوالے سے اس کے ساتھ مل کر چلے اور اسے مل کر چلنا چاہیے۔ مائیکل پینس کے ذریعے شاہد خاقان عباسی کو دیے جانے والے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس پیغام کا خلاصہ بھی ’’ڈومور‘‘ ہے۔
اب پاکستان اور امریکا کے درمیان انہی دولفظوں کا رشتہ باقی رہ گیا ہے۔ امریکی ہر ملاقات، برقی پیغام، تار، خط یا بیان میں پاکستان سے ’’ڈومور‘‘ کا تقاضا کرتے ہیں اور پاکستان جواب میں اپنی مجبوریوں اور شکایتوں کو دفتر کھول کر بیٹھتا ہے جس پر کبھی کبھی ’’نومور‘‘ کا عنوان صادق آتا ہے۔ اس تکرار میں افغانستان اور خطے کا امن کہیں دب کر رہ جاتا ہے۔ امریکا نے پاکستان کی چھیڑ ہی ڈومور بنا دی ہے اور پاکستان ان فرمائشوں اور مطالبات کو پورا کرنے سے قاصر ہے۔
پاکستان کے حکمرانوں نے پہلے بھی امریکا کی جنگ اپنے سر لے کر خود اپنے ملک کو خودکش حملوں کا گھر اور میدان کا رزار بنا ڈالا تھا اور اب دوبارہ امریکا کی بات من وعن قبول کرکے وہ افغان طالبان کو اپنے خلاف نہیں کر سکتا۔ یہ وہی طالبان ہیں جو پینتالیس فی صد علاقے کا کنٹرول رکھتے ہیں اور جن سے دوستی اور امن کی بھیک افغان حکمران ہی نہیں امریکی بھی مانگتے ہوئے نہیں تھکتے۔ افغان صدر اشرف غنی طالبان کو ایک سیاسی حقیقت اور سیاسی جماعت کے طور پر تسلیم کرنے کی پیشکش بھی کر چکے ہیں۔ صرف پاکستان سے طالبان کو کچل ڈالنے کا یک طرفہ مطالبہ درحقیقت ان قوتوں کی بدنیتی کا پتا دے رہا ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکا اور ناٹو کا ناکوں چنے چبوانے والے افغان طالبان کو چھیڑنا بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنے کے مترادف ہے۔ اس لیے پاکستان امریکا کی ان رنگ برنگی فرمائشوں کے جواب میں بادل نخواستہ ہی سہی ’’نومور‘‘ کہنے پر مجبور ہوتا ہے۔ امریکیوں نے جا وبے جا دباؤ ڈال کر امداد روک کر اور پابندیاں عائد کرکے پاکستان پر اپنا رہا سہا اثر رسوخ کم کر دیا ہے اسی لیے پاکستان میں امریکی سیاسی لابی اب در بدر ہو رہی ہے۔ امریکی سفیر کی سفارشی پرچیاں اب عہدوں اور مناصب کے لیے چھومنتر کا کام نہیں دیتی۔ اب یا تو پرچیاں لکھنے کی صلاحیت ہی سے محروم ہوگئے ہیں یا ان پرچیوں کا اُلٹا اثر ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکا اب پاکستان کے ساتھ حالت جنگ میں ہے خود امریکی تھنک ٹینکس کہہ رہے ہیں کہ امریکا کو چاہیے کہ پاکستان کو چھوڑ کر اپنی ساری توانائی اور صلاحیت بھارت کو خطے کی بالادست قوت بنانے پر صرف کرے۔ ایسے میں شاہد خاقان عباسی کی امریکی نائب صدر سے ملاقات سے کسی بریک تھرو کی توقع تو تھی ہی نہیں مگر امریکی حکام نے اس کا جھوٹا بھرم بھی نہیں رہنے دیا اور ملاقات میں ٹرمپ کے پیغام کا نچوڑ میڈیا میں ڈومور کی صورت میں بیان کر دیا۔ دونوں ملکوں کے تعلقات پر زوال کا یہ موسم پہلے کبھی سایہ فگن نہیں رہا۔