قوموں کی تاریخ میں بعض دن، مہینے اور سال خصوصی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ 23مارچ 1940 ایک ایسا ہی دن، مہینہ اور سال ہے جب ہم نے ایک نئی مملکت کی تشکیل کے لیے ایک نظریہ پیش کیا تھا۔ ہر سال یہ دن انتہائی جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔ مختلف جماعتیں اس حوالے سے جلسے جلوسوں کا انعقاد کرتی ہیں۔ ٹی وی چینلوں پر بھی خصوصی پروگرام پیش کیے جاتے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ دیکھنے میں آرہا ہے کہ 23مارچ کے حوالے سے بیش تر ٹی وی چینلوں کے پروگراموں میں یہ کوشش کی جاتی ہے کہ کسی بھی حوالے سے کسی کے لبوں پر اسلام کا نام نہ آنے پا ئے۔ کوئی بیان، کوئی تقریر، کسی کمنٹیٹر، کسی پروگرام کے میزبان )اینکر پرسن( کی گفتگو میں اسلام پر بات نہیں کی جاتی۔ واقعہ یہ ہے کہ رفتہ رفتہ ہم اس نظریے سے بچھڑتے جارہے ہیں جو پاکستان کی بنیاد ہے۔ ہمارے حکمران مغرب کے مقابل اسلام سے کنارہ کش رہنے میں ہی اپنے اقتدارکی بقا محسوس کرتے ہیں۔ پاکستان ہم نے اسلام کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کے لیے اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے مانگا تھا، یہ ایک میثاق تھا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اپنی کتاب میں صاف الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ اگر تم نے اس میثاق کو قائم رکھا تو اللہ تعالیٰ کی نصرت تمہارے شامل حال ہوگی۔ لیکن آج ہمارا انتخاب بدل گیا ہے۔ ہمارے حکمرانوں کی کوشش ہے کہ ہم اس خیال اس نظریے کو بھول جائیں فراموش کردیں جس طرح ہم نے اپنے عظیم ماضی کو فراموش کردیا ہے۔ 23تاریخ کے حوالے سے مارچ کا مہینہ اس عظیم ماضی کا ایک حوالہ ہے جس کی چند یادیں پیش خدمت ہیں۔
یہ 3مارچ 1924 تھا جب ایک ہزار تین سو برس پر محیط اسلام کی شان وشوکت، عظمت اور اتحاد کا خاتمہ ہوا۔ مسلمان پوری دنیا میں عزت اور احترام سے محروم کردیے گئے۔ جب خلافت کا خاتمہ ہوا۔ تب سے اسلام کو ایک پس ماندہ نظام کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ امت مسلمہ پھر سے یکجا نہ ہوسکے۔ امت مسلمہ کی یکجائی کا ذکر اس طرح کیا جاتا ہے جیسے یہ پتھر کے دور کی بات ہے۔ مسلمان حکمرانوں کا حوالہ محض اور محض عیاشی کی زندگی کو قرار دے دیا گیا ہے۔ اسلامی تاریخ کا مطالعہ حکمرانوں کی ذاتی زندگی سے آگے نہیں بڑھتا اور کسی بھی طور اس عہد کے لوگوں کی معاشی حالت، زیرو افراط زر، بے روزگاری کا نہ ہونا، بنیادی ضروریات کا انتہائی آسانی سے پورا ہونا، اتنی خوشحالی کہ زکوٰۃ لینے والے محال، فرقہ پرستی کا نہ ہونا اور تہذیبی اور ثقافتی ترقی کا تذکرہ نہیں ہونے دیا جاتا۔ ان عظیم حکمرانوں نے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے سیکڑوں خطہ ہائے زمین کو اسلام اور عربی زبان کی طاقت سے متحد کیا جب کہ آج کے روشن خیال، دانش ور اور ترقی پسند مسلم حکمرانوں سے چھوٹے چھوٹے علاقے نہیں سنبھالے جارہے۔
اس وقت جب کہ مغل سلطنت زوال کا شکار تھی، لارڈ میکالے نے 2فروری 1835 کو برطانوی پارلیمنٹ میں کہا تھا ’’میں نے انڈیا کے طول وعرض میں سفر کیا، میں نے ایک بھی ایسا شخص نہیں دیکھا جو بھکاری یا چور ہو۔ ایسی زبردست دولت میں نے اس ملک میں دیکھی ہے، ایسی بلند اخلاقی صفات اور ایسے زبردست لوگ کہ میں سوچتا ہوں کہ ہم اس ملک پر قبضہ نہیں کرسکتے جب تک کہ ہم اس قوم کی اصل طاقت کو ختم نہ کردیں اور وہ ہے اسلام۔‘‘ ہندوستان اس وقت کی دنیا کی معاشی سپر پاور تھا۔
اسلام کی 1300برس پر پھیلی حکومت کی پوری تاریخ میں سود کبھی بھی اس کے معاشی نظام کا حصہ نہیں رہا۔ نہ ہی ایسے شواہد ملتے ہیں کہ غربت کے خاتمے کے لیے کبھی کوئی پروگرام تر تیب دیا گیا ہو کیوں کہ ایسی غربت تھی ہی نہیں کہ آدمی دو وقت کی روٹی کا محتاج ہو۔1901ء میں جب اسلامی حکومت انتہائی کمزور اور مقروض تھی عالمی یہودی تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر ہرٹزل نے سلطان عبدالحمید ثانی کو پیشکش کی کہ فلسطین کی زمین کا کچھ حصہ یہودیوں کو بیچ دیا جائے۔ سلطان نے جواب دیا ’’برائے مہربانی ڈاکٹر ہرٹزل کو کہیں کہ میں فلسطین کی زمین کا ایک ہاتھ کے برابر حصہ بھی بیچ نہیں سکتا کیوں کہ یہ میری نہیں مسلم امہ کی سرزمین ہے۔ میرے لوگوں نے اس کے لیے سخت جنگیں لڑی ہیں اور اپنے خون سے اس کو سیراب کیا ہے۔ یہودی اپنے پیسے اپنے پاس رکھیں۔ اگر ایک دن اسلامی حکومت کا خاتمہ ہوگیا تو یہ فلسطین کو بغیر کسی قیمت کے حاصل کرسکتے ہیں لیکن جب تک میں زندہ ہوں چاہے میرے بدن کے ٹکڑے کردیے جائیں یہ فلسطین کو اسلامی ریاست سے جدا نہیں کرسکتے‘‘۔
ایک ہزار برس تک مسلمان اس دنیا کی سپر پاور تھے۔ اس کے بعد اپنے خاتمے تک بھی ایک بڑی طاقت رہے۔ اس زمانے کا عدالتی ریکارڈ آج بھی موجود ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ پورے ایک ہزار تین سو برس میں 200 سے بھی کم ہاتھ کاٹے گئے۔ سویڈن کا بادشاہ چارلس سوم چار سال تک مسلمانوں کا قیدی رہا۔ رہائی کے بعد اپنے وطن پہنچتے ہی اس نے جو پہلا حکم جاری کیا وہ محتسب کے ادارے کا قیام تھا۔
اس زمانے میں مسلمانوں کی زبردست فوجی طاقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ خلیفہ سلیم سوم کے دور حکومت میں الجزائر کا گورنر امریکا سے سالانہ 642ہزار ڈالر سونے کی صورت میں اور 12ہزار سونے کے سکے بطور ٹیکس وصول کیا کرتا تھا۔ اس ٹیکس کے جواب میں الجزائر میں امریکی قیدیوں کی رہائی اور امریکی جہازوں کی بحرالکاہل اور بحر قلزوم سے بحفا ظت گزرنے کی گارنٹی دی جاتی تھی۔ یہ تاریخ میں پہلا موقع تھا جب امریکا اس بات پر مجبور ہوا کہ وہ کسی دوسری ریاست کی زبان میں لکھے ہوئے معاہدے پر دستخط کرے۔ یہ تاریخ تھی 5ستمبر 1795ء۔
اس زمانے میں مسلمانوں کا نظام تعلیم کس معیار کا تھا اس کا اندازہ برطانیہ، سویڈن اور ناروے کے بادشاہ جارج دوم کے اس خط سے لگایا جاسکتا ہے جو اس نے بادشاہ ہشام سوم کو لکھا تھا۔ اس خط میں اس نے لکھا تھا ’’سلام کے بعد میں عالی جاہ کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ ہم نے آپ کی درس گاہوں اور صنعتوں کی عظیم ترقی اور بہتات کے بارے میں سنا ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ ہمارے بیٹے بھی ان چیزوں کو سیکھیں تاکہ یہ اچھی ابتدا ہو آپ کے نقش قدم پر چلنے کے لیے اور اس کے ذریعے علم کی روشنی ہمارے ملک میں بھی پھیل سکے جو چاروں طرف سے جہالت میں گھرا ہوا ہے۔‘‘
آج مسلسل کوشش کی جارہی ہے کہ ایک ہزار تین سو برس پر پھیلی ہوئی مسلمانوں کی اس عظیم تاریخ اور کارناموں کو فراموش کردیا جائے۔ تعلیمی نصاب سے کھرچ کھرچ کر مسلمان فاتحین اور عظیم مسلمان بادشاہوں کے کارناموں کو حذف کیا جارہا ہے۔ عظیم مسلم ریاست کو چھوٹے چھوٹے ممالک میں تقسیم کردیا گیا ہے اور ان میں جعلی دشمنیاں پیدا کردی گئی ہیں۔ اسلامی نشاۃ ثانیہ کے لیے کام کرنے والوں کو دنیا بھر میں نشانہ بنایا جارہا ہے۔ عرب لیگ اور او آئی سی جیسی تنظیموں کو مسلمانوں کے اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔ فلسطین اور کشمیر کے مسئلوں کو امریکی کی ثالثی میں طے کرنے کی کوشش کی جارہی ہے جب کہ قرآن کے الفاظ میں یہ وہ لوگ ہیں جو مسلمانوں کی تباہی سے خوش ہوتے ہیں۔ 23مارچ اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے ایک میثاق تھا۔ اس ملک میں اسلام کو نظام زندگی بنانے کا۔ چند ماہ بعد الیکشن کا انعقاد ہے لیکن اس میثاق کا ایفا کسی سیاسی جماعت کی جدوجہد میں شامل نہیں۔ دینی جماعتیں متحدہ مجلس عمل کی صورت ایک بار پھر روبہ عمل ہیں۔ دیکھیے پاتے ہیں عشاق بتوں سے کیا فیض۔