راؤ انوار کس کی پناہ میں تھا؟

899

سابق صدر اور پیپلزپارٹی کے شریک صدر نشین آصف علی زرداری کا ’’بہادر بچہ‘‘ راؤ انوار آخر کار گرفت میں آ گیا۔ اس کی بہادری پر طنز کرتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ کے چیف جسٹس نے کہا کہ ’’آپ بہادر تھے تو بزدلوں کی طرح کیوں چھپتے پھر رہے تھے۔‘‘ راؤ انور کی ساری بہادری نہتے افراد کو اغوا کرنے اور جعلی پولیس مقابلوں میں بغیر کسی مزاحمت کے قتل کرنے تک تھی اور جب اس کی حقیقت بے نقاب ہونے لگی تو روپوش ہوگیا۔ لیکن اہم ترین سوال یہ ہے کہ وہ اب تک کس کی پناہ میں تھا؟ یہ تو ظاہر ہے کہ وہ دارالحکومت اسلام آبادہی میں تھا اور وہیں سے برآمد ہوا۔ ملک بھر کی پولیس اور تمام انٹیلی جنس ایجنسیاں یا تو اس کا سراغ لگانے میں ناکام رہیں یا وہ کسی ایسے مقتدر ادارے کی حفاظت میں تھا جہاں سے اُسے برآمد کرنے والوں کے پَر جلتے تھے۔ عدالت عظمیٰ نے کئی بار اُسے پیش ہونے کا حکم دیا لیکن محافظوں نے توجہ نہیں دی۔ اسلام آباد کے باخبر حلقوں کو معلوم تھا کہ وہ کس محفوظ گھر میں ہے۔ جب عدالت نے یہ انتباہ کیا کہ اس کے سہولت کاروں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے گا‘ تب اسے عدالت میں پیش کر دیا گیا۔ اس کی پیشی بھی بڑے پراسرار طریقے سے ہوئی اور خبروں کے مطابق اسے ایک سفید گاڑی میں لایا گیا جو اسے چھوڑ کر واپس چلی گئی۔ یہ گاڑی کس کی تھی‘ اس کا نمبر تو ضرور نوٹ کیا گیا ہوگا۔ پھر پچھلے دروازے سے راؤ انوار کو عدالت میں لایا گیا۔ راؤ انوار کو اس کے سہولت کاروں نے اسی انداز میں اسلام آباد ائر پورٹ سے ایک جعلی نمبر پلیٹ والی گاڑی میں بٹھا کر محفوظ مقام پر چھپا دیا تھا۔ جعلی پولیس مقابلوں اور ماورائے عدالت قتل کی وارداتوں میں ملوث ایک پولیس افسر نے اپنی گفتگو میں تاثر دیا تھا کہ راؤ انوار کو خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ راؤ انوار نے نقیب اللہ محسود قتل کی تحقیقات میں دو وفاقی خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی اور انٹیلی جنس بیورو کو شامل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ لیکن بعض ذرائع کا خیال ہے کہ ان کے لیے سندھ پولیس کی تحقیقات فائدہ مند ثابت ہوسکتی ہے کیونکہ وہ طویل عرصے تک سندھ پولیس کے بڑے اہم افسر رہے ہیں اور اس میں کوئی شبہ نہیں کہ پیٹی بند اپنے پیٹی بند بھائی کا خیال ضرور رکھتا ہے۔ یہ بھی ظاہر ہے کہ راؤ انوار کی قاتلوں کی ٹیم کے کئی ارکان مفرور ہیں اور نہ جانے کتنے ابھی سروس میں ہوں۔ چنانچہ امکان تو یہی کہ سندھ پولیس ہلکا ہاتھ رکھے گی۔ راؤ انوار نے اپنی پناہ گاہ سے دیے جانے والے کئی پیغامات میں دعویٰ کیا تھا کہ اس نے تمام کارروائیاں حکومت کے ایما پر کیں اور ماورائے عدالت قتل حکومتی پالیسی کا حصہ تھی۔ چنانچہ 2011ء سے 2018ء کے درمیان 444 افراد قتل ہوئے مگر کسی ایک واقعے کی بھی تحقیقات نہیں ہوئی۔ تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایجنسیاں لوگوں کو پکڑ کر راؤ انوار کے حوالے کرتی تھیں۔راؤ انوار کی کارروائیاں بے کھٹکے چل رہی تھیں کہ 13 جنوری کو نوجوان نقیب اللہ محسود کا قتل مکافات عمل ثابت ہوا اور اس کی رسی کھینچ لی گئی۔ اسے کراچی پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے‘ جے آئی ٹی بن گئی ہے لیکن اسے ایک ماہ کا طویل ریمانڈ دے دیا گیا ہے۔ عدالت عظمیٰ نے بھی فوری طور پر راؤ انوار کے بینک اکاؤنٹس بحال کر دیے اور توہین عدالت کا نوٹس منسوخ کر دیا۔ اس کے اکاؤنٹس کی تحقیقات سے اہم معلومات ہوسکتی تھیں۔ سندھ حکومت کے سرپرست اعلیٰ آصف زرداری تو اسے اپنا بہادر بچہ کہہ ہی چکے ہیں۔ اب قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف اور پیپلزپارٹی کے رہنما خورشید شاہ کا رد عمل بھی غور طلب ہے۔ انہوں نے بدھ کو راؤ انوار کی گرفتاری پر کہا کہ اب اصل ملزمان کا سراغ مل جائے گا۔ گویا اُن کے خیال میں راؤ انوار اصل ملزم نہیں ہے۔ انہوں نے آصف زرداری کے بہادر بچے کی حمایت میں یہ بیان دیا ہے۔ ان کا یہ بھی فرمانا تھا کہ عدالت عظمیٰ راؤ انوار کو سزا نہیں دے سکتی۔ محسود قبائل کے گرینڈ جرگے کا دعویٰ ہے کہ وہ پہلے ہی مجرم ثابت ہو چکا ہے‘ اس کا فرار بھی ٹھوس ثبوت ہے۔ اس کے باوجود راؤ کو ہتھکڑیاں نہیں لگائی گئیں اور اسے ائر پورٹ کے ڈپلوِمیٹک انکلیو میں بھرپور پروٹوکول دیا گیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق عدالت عظمیٰ میں آئی جی سندھ کو بلا کر ان سے راؤ کی جان و مال کے تحفظ کی تحریری ضمانت لی گئی۔ ورثا سے بھی نقصان نہ پہنچانے کا حلف لیا گیا۔ یہ ایک ایسے شخص کے لیے کیا گیا جس کے ہاتھوں سے کسی کی جان و مال محفوظ نہیں تھے۔ راؤ انوار کو اگر غیر ضروری رعایتیں دی گئیں تو قبائلی جرگہ پھر احتجاج پر مجبور ہو جائے گا۔ ایک خدشہ یہ بھی ہے کہ راؤ انوار جن کی خدمت کرتا رہا وہی اس کو ٹھکانے نہ لگا دیں کہ کہیں وہ ان کے نام نہ اُگل دے۔