ہاتھ کی صفائی

422

اسکول کے زمانے میں نتائج سے کچھ پہلے اسکول میں فنکشن ہوتا تھا جس میں اسکول کے طلبہ قرات، نعت اور تقریری مقابلوں میں حصہ لیتے تھے پھر اس میں کچھ مزاحیہ ڈرامے وغیرہ بھی ہوتے تھے انہی میں ایک پروگرا م جادو گر کا بھی ہوتا تھا جس میں وہ ہاتھ کی صفائی سے مختلف کرتب دکھاتا، اس نے تمام حاضرین کو ایک انگوٹھی دکھائی پھر ایک بچے کو بلا کر وہ انگوٹھی اس کی اوپر والی جیب میں ڈال دی اور بچے سے کہا کہ تم بھی انگوٹھی نکال کر سب کو دکھاؤ اس نے جیب سے وہ انگوٹھی نکال کر سب لوگوں کو دکھائی اور پھر جیب میں رکھ لی اس جادوگر نے ایک موسمبی اٹھائی اس کو چھری سے کاٹا تو اس میں وہ انگوٹھی لگی ہوئی نظر آئی جب کہ بچے کی جیب سے غائب تھی۔ سینیٹ کے چیرمین کے الیکشن میں جو نتیجہ آیا اس نے اس واقع کی یاد تازہ کردی کہ کچھ لوگ ایسے ہوں گے جنہوں نے ووٹ تو شاید راجا ظفرالحق کو ڈالا ہو اور نکلا وہ صادق سنجرانی کے نام سے یہ ہاتھ کی صفائی کس نے دکھائی اس پر مہینوں بحث ہوتی رہے گی۔ ن لیگ نے انٹیلی جنس بیورو کو تحقیقات کا ٹاسک دیا اور یہ کہ خود اپنی پارٹی میں بھی ایک کمیٹی بنائی ہے جس نے ابتدائی رپورٹ میں کہا ہے جمعیت علمائے اسلام کے تین سینیٹرز نے راجا ظفر الحق کو ووٹ نہیں دیا اور مولانا فضل الرحمن پر بھی شبہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ انہوں نے بھی شاید ن لیگ کے امیدوار کو ووٹ نہیں دیا۔
سینیٹ کے چیرمین کے انتخاب کے بعد بڑی دلچسپ صورت حال پیدا ہوگئی ہے کہ حکومت کی اتحادی جماعتیں ایک دوسرے کو شک کی نظروں سے دیکھنے لگی ہیں نوازشریف صاحب نے مولانا فضل الرحمن سے شکوہ کیا ہے کہ آپ کے سینیٹرز نے ہمیں ووٹ نہیں دیے، جب کہ مولانا نے جواب دیا ایسا نہیں ہے بلکہ آپ اپنی صفوں میں کالی بھیڑوں کو تلاش کریں کہ ن لیگ کے بہت سینیٹرز ہی نے ن لیگ کو ووٹ نہیں دیا، مولانا پر یہ شبہ اس لیے جاتا ہے کہ انہوں نے ڈپٹی چیرمین کے لیے عبدالغفور حیدری کو امیدوار بنانے کی تجویز دی تھی جس پر پشتون خواہ عوامی ملی پارٹی نے اعتراض کیا اور کہا کہ پہلے آپ نے جمعیت علمائے اسلام کو ڈپٹی چیرمین کی نشست دی تھی اب ہمارا نمبر ہے۔ مولانا نے نواز شریف سے یہ بھی کہا کہ آپ اگر عبدالغفور حیدری کو ڈپٹی چیئرمین بنائیں گے تو اس سے دینی حلقوں میں آپ کی پزیرائی ہوگی اور آئندہ انتخابات میں بھی اس کے مثبت اثرات پڑیں گے لیکن پھر عثمان کاکڑ کے بارے میں فیصلہ ہو گیا جس دن نتائج آئے اسی دن ایک اخبار میں یہ خبر شائع ہوئی کہ جب عثمان کاکڑ کے بارے میں فیصلہ ہو گیا تو مولانا فضل الرحمن نے آصف زرداری کو فون کر کے کہا تھا کہ ہم ڈپٹی چیرمین کے لیے آپ کے ا میدوار کو ووٹ دیں گے۔ آصف زرداری نے مولانا کا شکریہ ادا کیا۔ سیاست کی دنیا میں مولانا اپنی ذات میں اکیڈمی ہیں جیسے کسی کا شعر ہے کہ ؂
دامن پہ کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کو ہو کہ کرامات کرو ہو
اس میں کوئی شک نہیں کے مولانا کی جتنی نواز شریف صاحب سے دوستی ہے اتنی ہی دوستی جناب آصف زرداری صاحب سے بھی ہے بلکہ وہ سب ہی سے دوستانہ مراسم بنا کر رکھتے ہیں اس لیے یہ بات بھی ممکنات میں سے ہو سکتی ہے ان کی دوستیاں شخصیات کے ساتھ اداروں سے اور بالخصوص اسٹیبلشمنٹ سے بھی ہو سکتی ہے انہیں آئندہ کے پی کے میں متحدہ مجلس عمل کے لیے راہیں ہموار کرنا ہے، آج شاہزیب خانزادہ کے پروگرام میں مولانا نے کہا کہ اس بات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ جے یو آئی کا کوئی سینیٹرز ادھر سے ادھر ہو جائے۔ ہم مولانا ہی کی بات کو سچ تسلیم کر لیتے ہیں، لیکن یہ سوال اپنی جگہ برقرار رہے گا کہ ن لیگ جسے اپنے جیتنے کا پکا یقین تھا کیسے ہار گئی۔ ایک اخبار میں انتہائی باوثوق ذرائع سے یہ خبر شائع ہوئی کہ آٹھ سینیٹرز جن کا تعلق ن لیگ سے تھا نے ہدایت کے مطابق ایک خاص تیکنک سے جس کی تفصیل خبر میں دی گئی ہے اپنے ووٹ کاسٹ کیے اور یہ سب ووٹ صادق سنجرانی کو ملے۔ نواز شریف صاحب ایسے لوگوں کو تلاش کریں وہ سینیٹرز کون ہیں جنہوں نے دھوکا دیا اور ان کے خلاف انضباطی کارروائی کا اعلان کریں لیکن کیا وہ ایسا کر پائیں گے، یہ دولت طاقت اور مفادات کے کھیل ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان لوگوں نے کوئی پائی پیسے نہ لیے ہوں یہی کیا کم ہے کہ ایک مضبوط پشت پناہی مل گئی۔
جس طرح نواز شریف صاحب کی مقبولیت روز بروز بڑھ رہی ہے اسی طرح ان کے لیے آئندہ کے امکانات محدود ہوتے جارہے ہیں جس طرح عدلیہ کے خلاف ان کے سخت بیانات آرہے ہیں اور یہاں تک کہنا کہ قلم ان کا ہے اور فیصلے کہیں اور سے آرہے ہیں۔ کہیں اور والے بھی یہ بات سمجھ رہے ہیں کہ بیٹی کو اس لیے ڈانٹا جارہا ہے کہ بہو اپنا رویہ درست کرلے۔ ہمیں زمینی حقائق کو سمجھنا چاہیے اور اپنے سابقہ کردار پر بھی غور کرنا چاہیے کہ جب جب پی پی پی کی حکومتیں آئیں ان کے ساتھ ہمار کیا رویہ رہا۔ جب آصف زرداری نے اینٹ سے اینٹ بجا دینے والا بیان دیا اور وہ کچھ دن بعد اسلام آباد میں نواز شریف سے ملنے گئے تو انہوں نے ملنے سے انکار کردیا اس سے کچھ عرصے قبل آپ کی فرمائش پر آصف زرداری نے پرویز مشرف کے خلاف سخت بیانات دیے تو آپ نے عدالتی کارروائی آگے بڑھانے کے بجائے ان کو محفوظ طریقے سے باہر بھیج دیا۔ اب آپ کے خطرناک ارادوں کا اندازہ پورے ملک کو ہوگیا کہ آپ 2018 کے الیکشن میں کامیابی کے بعد جس میں آپ کو یقین ہے کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرلیں گے آپ ایسی قانون سازی کرنا چاہتے ہیں جس سے کچھ اداروں کے پر کترنا چاہتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ جب کوئی جنگ برپا ہوتی ہے تو ہر فریق کو نہ صرف اپنے دفاع کا حق حاصل ہے بلکہ موقع ملتے ہی آگے بڑھ کر وار کرنے کا بھی اسے فطری طور حق حاصل ہو جاتا ہے۔