معیشت کی تصوراتی دنیا؟ 

320

ملک کی اقتصادی حالت خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے مگر اس کی ذمے داری قبول کرنے کو کوئی تیار نہیں۔ میاں نوازشریف گو کہ سیاسی منظر سے غائب ہوچکے ہیں مگر حکومت مسلم لیگ ن کی ہے جو نواز شریف کی سیاست کے لیے ہر حیلے بہانے سے راستے تلاش کرتی اور رکاوٹیں دور کرنے میں مصرف اور مگن ہے۔ خود وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کہہ چکے ہیں کہ اصل وزیر اعظم میاں نوازشریف ہیں۔ پانچ سال دودھ اور شہد کی نہروں کی نوید اور کہانیاں سنانے والے وزیر خزانہ اسحاق ڈار سرکاری خرچ پر لندن میں محوِ استرحت ہیں۔ وہ معاشی نظام سے بظاہر الگ تو ہیں مگراستعفا دینے کو تیار نہیں مگر وہ ملک کی موجودہ اقتصادی حالت کی ذمے داری قبول کرنے کو تیار نہیں۔ نواز شریف کے خیال میں نہ صرف یہ کہ پاکستان کی اقتصادی حالت میں بگاڑ کی وجہ ان کی نااہلی ہے بلکہ ان کا بس چلے تو وہ اوزون میں سوراخ اور زلزلوں اور سیلابوں کی وجہ بھی اپنی نااہلی کو قراردیں۔ ان کے تصور کے مطابق پاناما فیصلے سے پہلے تو ملک کی اقتصادیات راکٹ کی رفتار سے بلندی کی طرف مائل تھی۔ خدا جانے یہ کہانیاں اور افسانے اور فرضی دنیا کے نظارے کس کو دکھائے اور سنائے جا رہے ہیں۔ خود پاکستانی عوام تو اس معیشت تلے برسوں سے کراہتے رہے ہیں اور انہی کے حافظے کا امتحان لیا جا رہا ہے۔
ڈالر کی قدر میں اچانک پانچ روپے ریکارڈ اضافے نے ملک کے اقتصادی مستقبل کے حوالے سے فکر مندی کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ خوش حالی اور اقتصادی استحکام کی جس خوب صورت معاشی دنیا کی تصویر کشی حکمران کررہے تھے وہ محض خیالی اور تصوراتی ثابت ہو رہی ہے۔ اب اندازہ ہورہا ہے کہ اقتصادیات اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ محض ایک مصنوعی عمل تھا ایک نقاب اور سراب تھا۔ یہ نقاب اور میک اپ اُتر گیا تو اب ملکی اقتصادیات کا چیچک زدہ چہرہ پوری طرح عیاں ہو گیا ہے۔ ڈالر مہنگا ہونے سے بین الاقوامی تجارت میں ادائیگیوں کا توازن بگڑتا جا رہا ہے۔ خام تیل اور دیگر اشیاء کے درآمدی اخراجات میں اضافہ ہونے لگا ہے۔ اقتصادی ماہرین کے مطابق ڈالر کی قدر میں اضافہ ہوتے ہی چند گھنٹوں میں ملکی قرضوں میں پانچ سو ارب کا اضافہ ہوگیا ہے۔ ڈالر کی قدر میں ہوش رُبا اضافہ اور روپے کی قیمت میں کمی ہوتے ہی پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں مزید اضافے کی باتیں ہونے لگی ہیں اور پٹرول کی قیمت فی لیٹر نوے روپے جب کہ ڈیزل کی قیمت ایک سو روپے تک پہنچنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد مہنگائی میں کس قدر اضافہ ہوگا اس کا اندازہ اشرافیہ کو تو کبھی نہیں ہوگا مگر غریب، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے یا متوسط طبقے کو ضرور ہوگا۔
پاکستان کی معیشت کو سدھارنے کے ہر دعوے دار نے معیشت کو آکسیجن ٹینٹ کے سہارے زندہ رکھنے کی وقتی پالیسی اختیار کیے رکھی۔ بیمار معیشت کو فی الحقیقت ایک گرینڈ سرجری کی ضرورت تھی مگر اسے اُدھار کی اینٹی بائیوٹک کے
سہارے کھڑا رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔ ہر حکمران کی دلچسپی صرف اپنے دور اقتدار میں عوام کو مطمئن رکھنے میں رہی۔ اس کے بعد کیا ہوگا؟ اس سے انہیں کوئی غرض نہیں۔ اس ذہنیت کے ساتھ ملکی معیشت میں پائیدار اور حقیقی بہتری کبھی نہ آسکتی۔ ہر حکمران نے آئی ایم ایف کا پسندیدہ معاشی جادوگر اپنے ساتھ رکھا جو ہاتھ کے کمالات اور جادو کے کرشمے دکھا کر وقت گزارتا رہا۔ یہ جاودگر عالمی اقتصادی اداروں سے آسان شرائط پر قرض لے کر قوم کو خوش کرکے وقتی واہ واہ سمیٹتا رہا۔ جب وہ حکمران اور معاشی جادو گر منظر سے ہٹ جاتے تو معیشت کا سارا مصنوعی پن اور میک اپ تبدیلی کی پہلی پھوار سے دھل جاتا رہا۔ کسی بھی حکومت نے ٹیکس دہندگان کا دائرہ وسیع کرنے کے بجائے ٹیکسوں کو بڑھانے کا راستہ اختیار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ کروڑوں افراد کے ملک میں ٹیکس دہندگان کی تعداد چند لاکھ سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اسی طرح کرنسی کو مستحکم رکھنے کے لیے مصنوعی طریقے اختیار کیے گئے جس سے مہنگائی بڑھتی چلی گئی جب کہ نئے شعبوں تک ٹیکسوں کا دائرہ بڑھانے کی طرف توجہ ہی نہیں دی گئی۔ سیلز ٹیکس، گیس اور کسٹم ڈیوٹی میں اضافہ کرکے مریض جاں بلب کو چند سانسیں دی جاتی رہیں۔ کئی اشیا پر ود ہولڈنگ ٹیکس عائد کرکے حکومتی آمدنی میں اضافے کا راستہ اپنایا گیا۔ حکومتی آمدن میں کچھ اضافہ تو ہوا مگر پیداواری شعبے میں لاگت بڑھنے سے نقصان کا گراف اس سے کہیں بلند تھا۔ اب پاکستان کو مجموعی طور پر قرض کی ادائیگیوں میں عدم توازن کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ملکی معیشت کے لیے یہ خطرناک صورت حال ہے۔ بلاشبہ ملک کی غیر مستحکم سیاسی صورت حال نے بھی حالات کو اس نہج پر لے جانے میں کچھ نہ کچھ کردار ادا کیا ہوگا مگر ناقص منصوبہ بندی اور ایڈہاک ازم اس کی بنیادی وجہ ہے۔
پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے اور ایٹمی ممالک اس طرح کی صورت حال کا متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسے میں جب پاکستان کی صلاحیت اور وجود کے گرد مغربی طاقتوں نے سرخ دائرہ بھی کھینچ کر رکھا ہو یہ معاملہ اور بھی گمبھیر ہورہا ہے۔ آزاد معاشی ماہرین کے مطابق اب پاکستان کے پاس مغربی طاقتوں کے اشارے پر کام کرنے والے آئی ایم ایف کے آگے دست سوال دراز کرنے کے سوا کوئی چارہ باقی نہیں رہا۔ آئی ایم ایف اس کے بدلے میں کیا منوائے گا اس صورت حال سے نکلنے کے لیے غیر مقبول اور تلخ فیصلے کرنا ناگزیر ہیں تو حکمرانوں کو ان سے کسی طور گریز نہیں کرنا چاہیے۔ صنعت کاروں کو مزید رعایتیں دینا ہوں گی تاکہ پیدواری لاگت کم ہو سکے اور اپنی منڈیوں میں اپنا مال مناسب داموں پر پہنچ سکے۔ کراچی کی بزنس کمیونٹی سے وابستہ ایک شخصیت کا یہ بیان خاصا حیرت انگیز ہے کہ سی پیک کی مبارکبادیں وصول کرنے کے بعد اس کے حقیقی مقاصد سے فائدہ تاحال اُٹھایا نہیں گیا۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ دنیا کی سب سے بڑی اقتصادی سرگرمی کہلانے والے اس منصوبے کے اثرات پاکستان کی ڈولتی ہوئی معیشت میں کہیں دکھائی نہیں دے رہی۔ پاکستان سی پیک سے پہلے بھی دست بہ کشکول تھا اور اب یہ کشکول کچھ اور بڑا اور وزنی ہو کر رہ گیا ہے۔