آئین کی حفاظت اور جسٹس دوست محمد

214

جسٹس دوست محمد‘ مدت ملازمت مکمل ہو جانے پر عدالت عظمیٰ کے جج کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہو گئے ہیں‘ ان کی ریٹائرمنٹ پر باقاعدہ ریفرنس نہیں ہوا‘ ہر ریٹائر ہونے والے جج کے لیے عدالت عظمیٰ میں ریفرنس ہوتا ہے‘ جس میں برادر جج اور سینئر وکلا‘ اٹارنی جنرل خراج تحسین پیش کرتے ہیں اور یوں باوقار انداز میں جج کو رخصت کیا جاتا ہے تاہم عدالت عظمیٰ کی تاریخ میں کچھ لمحے ایسے بھی ہیں کہ جب ریٹائر ہونے والے جج کے لیے کوئی ریفرنس نہیں ہوا‘ ان میں افضل ظلہ‘ جسٹس رفیق تارڑ‘ جسٹس سجاد علی شاہ‘ جسٹس سعید الزمان صدیقی جیسے جج بھی شامل ہیں ان کے لیے ریفرنس نہ ہونے کی اپنی اپنی وجوہ ہیں‘ ان کے لیے ریفرنس نہ ہونے پر پشاور ہائی کورٹ بار نے پریشانی کا اظہار کیا ہے الوداعی ریفرنس کسی بھی جج کے لیے بڑا اعزاز ہوتا ہے۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ کے جج ملک کے آئین کے محافظ ہوتے ہیں‘ قانون کی تشریح کرتے ہیں اور عدالت عظمی کا فیصلہ ہی حتمی اور آخری فیصلہ ہوتا ہے ہر جج کے رو برو نہ جانے کتنے مقدمات پیش کیے گئے ہوں گے تاہم ہر فیصلہ جج اپنے ضمیر کے اطمینان کے ساتھ ہی کرتا ہے‘ انسانی غلطی‘ بشری کمزوری کسی بھی وقت ہوسکتی ہے اور کسی سے بھی ہوسکتی ہے‘ اللہ کے خوف کے ساتھ فیصلہ کرنے والا جج قیامت کے روز اللہ کے سائے میں جگہ پائے گا‘ا نسان کا خوف دل میں رکھ کر فیصلہ کرنے والے کے لیے کہاں جگہ ہوگی یہ بھی بڑی واضح بات ہے ا س کے لیے کسی اعلیٰ دانش کی ضرورت نہیں ہے جسٹس دوست محمد خان کو جج کے طور پر کام کرنے کا موقع ملا اور انہوں نے آئین کے مطابق کام کیا‘ کسی قسم کا کوئی دباؤ خاطر میں نہیں لائے‘ جنرل پرویز مشرف کے دور میں لاپتا لوگوں کے بارے میں انہوں نے مقدمہ کی سماعت کی تو اہل اختیار کو بنیادی آئینی حقوق کی یاددہانی کرائی وہ ایک حساس دل رکھنے والے جج تھے اسی لیے 3 نومبر کے پی سی او کے تحت حلف نہیں اٹھایا وہ ججز کی بحالی تحریک میں بھی پیش پیش رہے اور اعلیٰ کردار کا مظاہرہ کیا وہ بنیادی آئینی حقوق کے بارے میں کیسز کی سماعت کرتے ہوئے نہایت جرأت مندی سے سوال پوچھتے وہ بطور جج بنیادی آئینی حقوق کے دفاع کے لیے لڑتے رہے یہ بھی جسٹس دوست محمد خان ہی تھے، جنہوں نے فاٹا میں ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار دیا اور UN کے ضابطوں کی خلاف ورزی بھی قرار دیا تاہم انہیں پانامہ پیپرز کیس، نااہل پارٹی صدر کیس، 62,63 کیس سننے کا موقع ہی نہیں ملا‘ نہال ہاشمی کیس میں وہ بھی معزز بنچ کے ممبر تھے مگر وہ فیصلے میں شریک نہیں بنے میڈیا کے نمائندوں کے خلاف بھی توہین عدالت کا کیس تھا جہاں جسٹس آصف سعید کھوسہ نے جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ مشاورت کے بعد توہین عدالت کارروائی ختم کرنے کا اعلان کیا جسٹس دوست محمد خان نے ضروری بنیادی آئینی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی کے احترام کو توثیق بخشی ہوگی یہ اندازہ ان کے ریمارکس سے بھی لگایا جاسکتا ہے جب انہوں نے احمد نورانی کیس میں کہا کہ ہم لوگوں کو غیر ضروری طور پر توہین عدالت سے نہیں ڈرا سکتے۔ انہوں نے یہ بھی تبصرہ کیا کہ اس ملک میں قانون و آئین چلے گا یا کسی اور کی چلے گی۔ زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ہمیں اگر آنے والی نسلوں کو ایک بہتر ملک دینا ہے تو ایسی باتوں سے نکلنا ہوگا۔
ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے جج کے طور پر جناب جسٹس دوست محمد خان نے آئین اور قانون کے علم کو صحیح طور پر تھامے رکھا اور جرأت اور بہادری سے آئین کا دفاع کیا۔ وہ کسی بھی ایسے متنازع فیصلے میں شامل نہیں رہے جن پر آج قوم میں بحث جاری ہے جسٹس دوست محمد خان نے اکثر ایسے فیصلے دئے جن سے بنیادی آئینی حقوق محفوظ ہوتے ہیں انہوں نے جمہوریت کے خلاف ہونے والی کسی بھی سازش کا حصہ بننے سے ہمیشہ انکار کیا ہے اور آنے والے ججوں کے لیے شاندار مثال چھوڑی ہے جسٹس دوست محمد خان کو ان کی ریٹائرمنٹ کے موقع پر خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے کیوں کہ آئیڈیل جج وہی ہوتے ہیں جو آئین کے محافظ ہوتے ہیں۔