نوٹوں کی سیاست

427

وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے ایک بڑا سوال اٹھادیا ہے۔ ان کا کہناہے کہ چیئرمین سینیٹ نوٹو سے آیا ہے نیا چیئرمین لائیں گے۔ چیئرمین کی کوئی عزت نہیں، اسے ووٹ خرید کر چیئرمین بنایاگیا ہے۔ یہ شخص سینیٹ کے لیے بھی بے عزتی کا باعث بنے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا نوٹوں کے ذریعے لایا جانے والا شخص ادارے کے لیے بے عزتی کا باعث ہوتا ہے۔ اگر چیئرمین کے لیے یہ فارمولا ہے تو اسمبلی کے لیے کیا ہوگا۔ کابینہ کے لیے بھی یہی ہونا چاہیے۔ مشیروں اورکمیٹیوں کے لیے بھی یہی فارمولا ہونا چاہیے۔ وزیراعظم کی یہ بات تو سو فی صد درست ہے کہ جس ادارے کے چیئرمین کو ووٹ خرید کر لایاگیا ہو اس کی کیا عزت ہوگی۔ مگر وزیراعظم یہ بھی تو بتائیں کہ ان کے کتنے سینیٹرز خرید کر لائے گئے ہیں۔ کیا قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات میں نوٹ نہیں لگتے حتیٰ کہ بلدیاتی کونسلرز کی نشست پر ٹکٹ کے حصول کے لیے نوٹ لگائے جاتے ہیں۔ المیہ یہی ہے کہ ہمارے ملک میں معمولی سطح سے لے کر وزیراعظم، چیئرمین اور دیگر اعلیٰ عہدوں کے لیے بھی نوٹ لگائے جاتے ہیں۔ پاکستان کی سیاست تو نوٹوں کا کھیل بن چکی ہے۔ پوری اسمبلی میں یہی ہوتا ہے۔ لوگ اپنی پارٹی کی قیادت کے سامنے روپوں کا ڈھیر لگاتے ہیں۔ جیتنے والا حلقہ اپنے لیے لینا چاہتے ہیں پارٹیوں میں اس امر پر جھگڑے ہوتے ہیں، کبھی کوئی آزاد کھڑا ہوجاتا ہے پھر جیت کر ووٹ یا سیٹ اس پارٹی کے سربراہ کے قدموں میں ڈھیر کردیتا ہے اور پھر اس کے عوض وزارت یا مراعات طلب کرتا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اسے وزارت اور مراعات مل بھی جاتی ہیں۔ یہ سارا نوٹوں ہی کا کھیل ہے۔ چیئرمین سینیٹ کا معاملہ اس لیے برا لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے نمائندے کو کامیابی نہ ملی بلاشبہ راجا ظفر الحق ہر اعتبار سے مناسب شخصیت تھے۔ لیکن نوٹوں کا یہ کاروبار یکطرفہ تو نہیں۔ آج کسی اور نے زیادہ نوٹ کامیابی سے لگادیے اور سنجرانی جیت گئے۔ آخر مسلم لیگ ن کے کم سینیٹر اپنا نہ ہونے کے بعد زیادہ کامیاب کیسے ہوگئے۔ کیا اسمبلیوں میں ان کی سیٹیں بڑھ گئیں؟ ایسا تو نہیں ہوا تھا۔ جب سینیٹ کے انتخابات کے لیے نامزدگیاں ہورہی تھیں اس وقت امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے توجہ دلائی تھی کہ سینیٹ کے الیکشن میں نوٹوں کا کاروبار ہورہاہے۔ چمک دکھائی جارہی ہے۔ اس گنگا میں سب نے نہایا ہے۔ کیا مسلم لیگ کیا پیپلزپارٹی، اے این پی اور تحریک انصاف وغیرہ سب کے ارکان اسمبلی نے خوب مال کمایا ہے۔ پی ٹی آئی کی رکن اسمبلی نے علی الاعلان اعتراف کیا کہ میں نے تو کسی اور کو ووٹ دیا اس الیکشن میں تو مسلم لیگ، اے این پی، پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم سب تھے الیکشن میں نوٹ چلنے کی شکایات کی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان سب پارٹیوں نے نوٹ خرچ کیے ہیں اور نوٹوں کے ذریعے اپنا آدمی منتخب کرانے کی کوشش کی ہے۔ سب سے بڑا ثبوت تو ارب پتی تاجر کے ایم کیو ایم کی سیٹ حاصل کرنے کی کوشش پر ہنگامہ تھا۔ جب ڈاکٹر فاروق ستار نے کامران ٹیسوری کو سینیٹ کی سیٹ کے لیے نامزد کیا تو ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ ایم کیو ایم دو دھڑوں میں پی آئی بی اور بہادر آباد میں تقسیم ہوگئی۔ ایسا کیوں ہوا۔ کیا کامران ٹیسوری علمی شخصیت تھے۔ ان کی خدمات کراچی کے لیے بہت زیادہ تھیں؟؟ انہوں نے کچھ بھی کیا ہوتا تو اس کا شور مچاکر آسمان سر پر اٹھالیا جاتا۔ حتیٰ کہ وہ یہ بھی نہیں بتاسکے کہ کامران ٹیسوری نے خدمت خلق کمیٹی کو کیا چندہ دیا۔ جو بھی نوٹ لگائے گئے وہ غیر مرئی تھے۔ خواہ بلوچستان میں لگے ہوں، متحدہ میں لگے ہوں یا پی ٹی آئی وغیرہ میں۔ فاٹا کے ارکان کے حوالے سے بھی خبریں منظر عام پر آچکی ہیں۔ 90 کروڑ تک کی پیشکشوں کا اعتراف کیا جاچکا۔ پورے لوٹ مار کے دھندے میں صرف جماعت اسلامی بچی رہی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس جماعت میں نوٹ کی بنیاد پر کسی کو رکن اسمبلی یا سینیٹ نہیں بنایاجاتا۔ یہاں اگر نوٹ چل رہے ہوتے تو کوئی کروڑ پتی ارب پتی شخص جماعت کا امیر بنتا۔ ایک غریب آدمی اس کا امیر بن گیا۔جماعت اسلامی کے نوجوان رکن اسمبلی کو سینیٹ کے لیے خریدنے کی کوشش کی گئی اسے 9 کروڑ روپے کی پیشکش ہوئی اس بندۂ خدا نے خاموشی سے پیشکش ٹھکرادی۔ جب سراج الحق نے ایک اجتماع میں اس کا واقعہ بتایا تو یہ پھوٹ پھوٹ کر رودیا۔ وزیراعظم کے انداز سے تو ایسا لگتا ہے کہ مسلم لیگ انتخابات کا اعلان ہونے سے قبل چیئرمین سینیٹ بدلنے کی کوشش کرے گی۔ اس کوشش کے لیے ظاہری بات ہے پھر نوٹ خرچ کیے جائیں گے۔ سینیٹ کے الیکشن کے لیے نوٹ، چیئرمین کے انتخاب کے لیے نوٹ، اب دوبارہ انتخاب کے لیے نوٹ خرچ ہوں گے۔ یہ نوٹ کہاں سے آئیں گے؟اگر کوئی اپنی جیب سے دے گا تو وصول بھی کرے گا اور اگر سرکاری خزانے سے دے گا تو اس کا مطلب ہے عوام کے پیسوں پر سیاست کی جارہی ہے۔ اب عدالت عظمیٰ نے سرکاری اشتہارات میں سیاسی رہنماؤں کی تصاویر پر پابندی لگادی ہے اور ان سے اپنی جیبوں سے ادائیگی کے لیے کہا گیا ہے تو پھر سینیٹ کے لیے چیئرمین تبدیل کرنے کا بل بھی ان کی جیبوں سے وصول کیا جائے۔ اور بات صرف بل کی ہوتی تو کیا بات تھی قوم بھی یہ برداشت کرلیتی لیکن معاملہ بل کا تو ہے نہیں۔ یہ تو سارے کا سارا لوٹ مار کا کھیل ہے پیسے دے کر سیٹ حاصل کی جاتی ہے۔ پیسوں کے بل پر چیئرمین شپ لی جاتی ہے، روپے ہی کے بل پر نیا چیئرمین لیا جائے گا۔ یہ کھیل کیسے ختم ہوگا۔ ہر سیاسی جماعت دعویٰ تو کرتی ہے لیکن جب اس کھیل کو ختم کرنے کے لیے پیسے لگاکر کوئی پارٹی اقتدار میں آجاتی ہے تو پیسے لگاکر اس تبدیلی یا بہتری کا راستہ روکتی ہے۔ اس کا سیدھا سادہ راستہ تو متناسب نمائندگی کا نظام ہے اس نظام میں پارٹیاں اہمیت رکھیں گی عوام پارٹیوں کوووٹ دیں گے افراد کو نہیں اور پارٹیوں کو منشور اور کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ ملتے ہیں۔ افراد تو دولت، طاقت اور منصب کی بنیاد پر عوام سے ووٹ لیتے ہیں اور جب یہ منتخب ہوجاتے ہیں تو اپنے وہ نوٹ واپس لینے کے لیے ملک کو بیچنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ وزیراعظم نے چیئرمین سینیٹ کے بارے میں کہاہے کہ صدر کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صدر مملکت ہوتا ہے شاید انہیں صدر کے منصب پر ایسا آدمی بیٹھا اچھا نہیں لگتا جو ضمیر خرید کر چیئرمین بنا ہو۔ حیرت ہے اس ملک میں شاہد خاقان عباسی نے اور ان کی پارٹی نے اس آدمی کو پانچ سال صدر مملکت کے عہدے پر نہ صرف تسلیم کیا جو سینما کے ٹکٹ سے لے کر ضمیروں تک کی فروخت اور خرید میں مشہور تھا۔ اس کو صدر کے منصب پر بٹھاکر قائم مقام صدر پاک صاف دیکھنا چاہتے ہیں۔ سارا مسئلہ اپنے چیئرمین کا ہے۔ کسی کو پاک صاف اور عوام کے ووٹوں سے منتخب چیئرمین کی ضرورت ہے نہ فکر۔ اگر ایسا ہی ہے تو اسمبلیوں اور سینیٹ سے ایسے تمام منتخب افراد کو باہر کردیاجائے خواہ اس کی زد اپنے ارکان اسمبلی پر پڑے یا کسی اور پر۔ متحدہ قومی موومنٹ کا ذکر تفصیل سے نہیں کیا گیا۔ حالانکہ اس کے ارکان اسمبلی کو تو کئی مرتبہ کہیں اور سے مسلط کیا گیا۔ ان کو تو ہارنے کے باوجود جیتا ہوا قرار دیا گیا۔ بلدیہ میں تو جنرل پرویز نے کمال کیا تھا۔ نعمت اﷲ خان کی جگہ مصطفی کمال کو لا بٹھایا۔ کسی نے تو نوٹ خرچ کیے ہوں گے اس پر۔