نئی ایسٹ انڈیا کمپنی تو آچکی

395

حالات نہایت تیزی سے تبدیل ہورہے ہیں، حکومتیں اپنا وقت پورا کرنے میں مصروف ہیں، عدالتیں از خود نوٹسز اور نا اہلی اور اہلیت کی درخواستیں نمٹانے میں مصروف ہیں۔ پاناما کا صرف ایک کیس سال بھر سے زیادہ کا پڑگیا لیکن کسی کو ملک کے ساتھ ہونے والی سازش پر توجہ دینے کا وقت نہیں مل رہا۔ سب بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے ہی ایک مقدمے کی سماعت کے دوران میں چیف جسٹس ایک جملہ بول گئے۔ انہوں نے یہ جملہ کسی اور تناظر میں کہا تھا لیکن یہ نہایت قابل غور اور ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہمیت کا حامل جملہ ہے۔ چیف جسٹس نے کہاہے کہ ملک کو ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح ٹھیکیداروں کے سپرد نہ کیا جائے۔ ان کا یہ تبصرہ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں تنخواہوں میں تفاوت اور میڈیکل کالجوں کی فیسوں سے متعلق تھا۔ لیکن اس جملے سے ایسا لگا کہ وہ پاکستان کے لیے اربوں ڈالر کے قرضے لے کر ترقی کے منصوبوں کے اعلان کے حوالے سے کوئی بات کہنا چاہ رہے ہیں۔ اگر وہ نہ بھی کہنا چاہتے ہوں تو بھی انہیں اس معاملے کا ضرور نوٹس لینا چاہیے کہ پاکستانیوں کو ترقی کے نام پر کس قیمت پر گروی رکھا جارہاہے۔ بجلی 2018ء میں آجائے گی۔ 2018ء کے تین ماہ مکمل ہونے کو ہیں پوا ملک بجلی کے لیے پریشان ہے، سڑکیں اسی طرح ٹوٹی پھوٹی ہیں،ٹرینیں تباہ حال ہیں، اسکول اوطاق بنے ہوئے ہیں یا کچرا گھر۔ اساتذہ غائب، اسپتال نہیں ہیں اور ہیں تو ڈاکٹر اور دوائیں نہیں ہیں۔ کراچی ہو یالاڑکانہ اور نوابشاہ پنجاب ہو یا بلوچستان کہیں چلے جائیں غریب صحت اور تعلیم کی سہولتوں سے محروم ہے اور اس جانب کسی کی توجہ نہیں کہ حکومت 56 ارب ڈالر قرض لے کر جس ترقی کا راگ الاپ رہی ہے وہ صرف چند برس میں پاکستان کو قرض دینے والے کا غلام بنادے گی۔ بڑی بڑی سڑکیں تو الگ رہیں چھوٹی چھوٹی سڑکیں بھی نہیں بن رہیں۔ چیف جسٹس کے بیان سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ سی پیک کے نام سے جو ترقی ہورہی ہے اس کے نتیجے میں ملک کس طرح ایسٹ انڈیا کمپنی کے حوالے ہوجائے گا اور یہ کمپنی پاکستان کے ساتھ کیا سلوک کرے گی، یہ بات پاکستانی قوم کو معلوم ہونی چاہیے کہ سی پیک کے نام پر کتنا قرض کن شرائط پر لیا جارہاہے۔ پاکستان کا وقار، قومی سلامتی اور خود مختاری کس قیمت پر گروی رکھی جارہی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کی سوچ ہی کچھ اور ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کرکٹ میچ کامیابی سے منعقد کرانے کو حکومت کی کارکردگی قرار دے رہے ہیں ان کا کہناہے کہ معیشت کی بحالی، قیام امن اور کھیلوں کا فروغ حکومتی کارکردگی کا ثبوت ہے۔ مریم نواز کہتی ہیں کہ نواز شریف نے میچ کرواکر ایک اور وعدہ پورا کردیا۔ اگر معیشت کی بحالی کا جائزہ لیا جائے تو صرف قرضوں میں اضافہ ہورہاہے، معیشت کا ہر شعبہ پریشان ہے۔ برآمدات کو دھچکا لگ رہا ہے، اہم قومی ادارے تباہ کرکے معیشت کی ترقی کا دعویٰ کیا جارہاہے۔ پاکستان اسٹیل کو حکومتی سرپرستی میں تباہ کیا گیا، پی آئی اے کو حکومت خود تباہ کررہی ہے۔ اگر پاکستان اسٹیل کو بند نہ کیا گیا ہوتا تو سی پیک کے منصوبوں کے لیے پاکستان اسٹیل کی پیداوار سے فائدہ اٹھایا جاسکتا تھا۔ اس سے دوسروں کی مرضی کے نرخوں پر اسٹیل در آمد کرنے سے جان چھوٹتی۔ لیکن ہمارے حکمران قرض کی بنیاد پر ترقی کو ترقی سمجھتے اور کہتے ہیں چیف جسٹس اپنے دیگر از خود نوٹسز کی طرح ایک اور نوٹس لے لیں کہ سی پیک کن شرائط پر ہورہاہے۔ پاکستانی حکومت اور ادارے کیا کررہے ہیں، چینی کمپنیوں ، اداروں اور افراد کی آمد کی رفتار بہت تیزہے مزید کتنے لوگ، کتنے ادارے اور کن شرائط پر آئیں گے جو مال کمائیں گے وہ کہاں جائے گا ٹیکس سے سب کو استثنا ہوگا یا کچھ پاکستانی خزانے کو بھی ملے گا۔ زمینیں کن شرائط پر دی گئی ہیں ان سب باتوں کا علم اور ریکارڈ ہونا چاہیے۔ ریکوڈیک کی طرح بعد میں نوٹس لینے سے ملک کی بدنامی ہوتی ہے۔ ترکی سے بجلی پیدا کرنے والے جہاز اور موٹروے روکنے کے نتیجے میں جرمانے دینے پڑے۔ اگر بعد میں اٹھ کر ملک کو نقصان پہنچانا ہے تو ابھی کیوں نہیں اٹھ جاتے۔ ویسے چیف صاحب کی اطلاع کے لیے عرض ہے کہ نئی ایسٹ انڈیا کمپنی تو پاکستان میں آچکی ہے۔ اس سے قبل کہ یہ کمپنی پاکستانی عوام کو غلام بنائے عدالت عظمیٰ سنجیدہ نوٹس لے۔ یہ ارکان اسمبلی اور سینیٹ تو نوٹ لے کر آئے ہیں اور نوٹ لے کر بدلے جاتے ہیں۔ ان پر تو اب کوئی اعتماد کرنے کو تیار نہیں۔