ابتدا سے ہی ایس ایف اے کی پہنچ صوبے کے ہر کونے تک ہونی چاہیے: مفسرملک
کراچی چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر مفسر عطا ملک نے سندھ فوڈ اتھارٹی کے آپریشن کو صرف کراچی شہر تک محدود رکھنے کے حکومتی اقدام پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس سے تاجر وصنعتکار برادری کی مشکلات میں اضافہ ہوگا اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ایس ایف اے کو جلد بازی میں قائم کردیا گیا ہے ۔
ایک بیان میں مفسر ملک نے خوراک و پارلیمانی معاملات کے وزیر نثار کھوڑو کی اس سلسلے میں حالیہ پریس کانفرنس کا حوالہ دیا
انھوں نے واضع الفاظ میں کہا کہ کراچی چیمبر ایس ایف اے کے قیام کے خلاف نہیں کیونکہ محفوظ اور صحت مند خوراک کو کسی بھی قیمت پر عوام الناس تک پہنچانا ہو گا جو ہر شہری کا بنیادی حق ہے تاہم اس اتھارٹی کی کارروائیوں کو کراچی تک محدود رکھنا نا انصافی ہے۔ ابتدا سے ہی ایس ایف اے کی پہنچ صوبے کے ہر کونے تک ہونی چاہیے کیونکہ سندھ بھر کے شہروں اور دیہاتوں میں کھانے پینے کی اشیا کے حوالے سے حفظان صحت اور صفائی کی صورتحال کراچی کے مقابلے میں کافی خراب ہے۔
ایس ایف اے کے انسپکٹروں کو دی جانے والی مختلف زمے داریاں جن میں انہیں ہوٹلوں، ریسٹورینٹس، خوراک کی مارکیٹوں، دیپارٹمینٹل اسٹورز، فوڈ انڈسٹریز، بیکریوں، ڈیری و گوشت کی دکانوں، پانی کی بوتلوں کی کمپنیوں ، کھانے کی مختلف آؤٹ لٹس اور صنعتوں کا معائنہ کرنے کا اختیار حاصل ہے پر تبصرہ کرتے ہوئے کے سی سی آئی کے صدر نے زور دیا کہ ان انسپکٹرز کے لئے ایس او پیز کی وضاحت کی جانی چاہئے اور مواصلات کے ہر ذرائع کو بروکار لاتے ہوئے ان کی بھرپور تشہیر کی جائے تاکہ عوام میں آگاہی پیدا کی جا سکے اور ساتھ ہی اس بات کی بھی یقین دہانی کی جانی چاہئے کے کوئی بھی تاجر ان انسپکٹروں کے ہاتھوں حراساں نہ ہو پائے۔ ایس ایف اے کے تمام تر آپریشنز کو مکمل طور پر شفاف اور خودکار بنانے کے علاوہ آن لائن رسائی کی سہولت بھی فراہم کی جائے تاکہ رشوت خوری کی حوصلہ شکنی کرتے ہوئے متعلقہ تاجروں و صنعتکاروں کی پریشانیوں کو کم کیا جاسکے۔
انھوں نے مشورہ دیا کہ سیمینارز اور اشتہارات کے ذریعے کھانے پینے کی اشیا کے معیار پر مبنی بڑے پیمانے پر آگاہی مہم کو چلایا جائے جبکہ اتھارٹی اُس وقت تک کسی بھی قسم کی سزا دینے سے گریز کرے جب تک کہ معیار کے مطابق اشیا تیار کرنے کی مکمل آگاہی حاصل نہ ہو جائے۔ اس کے بعد اگر ایس ایف اے کو انسانی استعمال کے لئے مضر اشیا کہیں ملیں تو سب سے پہلے معیار بہتر بنانے کے لئے مخصوص ڈیڈ لائن دی جائے اور ڈیڈ لائن گزرنے کے بعدہی سزا کی کارروائی عمل میں لائی جائے ۔ رشوت کی ہرصورت حوصلہ شکنی کرناہوگی جبکہ متعلقہ قوانین کو کچھ اس طرح وضع کیا جائے کہ کوئی بھی شے جو انسانی استعمال کے لئے مضر پائی جائے تو ایسی صورت حال میں نہ صرف متعلقہ تاجر بلکہ وہ انسپکٹر جو موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے حراساں کرنے اور رشوت لینے میں ملوث ہوں ان کو بھی سخت سزا و جرمانے کا سامنا کرنا پڑے۔ مقصد صرف خوراک کے شعبے کو بہتر بنانا اور موئثر طریقے سے ریگیولیٹ کرنا ہونا چاہئے نہ کے رشوت ستانی کے لئے نئی راہیں کھولنا۔