حسینہ واجد کا نظریہ پاکستان سے خوف

439

بنگلا دیشی وزیراعظم‘ غدار پاکستان شیخ مجیب کی بیٹی حسینہ واجد نے اعلان کیا ہے کہ جن بنگلا دیشیوں کے دلوں میں پاکستان کی محبت اب تک ہے اُن کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی‘ انہیں سخت سزائیں دیں گے۔ وہ بنگلا دیشی باشندوں میں پاکستان کی محبت سے اس قدر خوف زدہ ہے کہ اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ ہمیں ایسے اقدامات کی اشد ضرورت ہے جن کے ذریعے بنگلا دیشیوں کے دلوں سے پاکستان کی محبت ہمیشہ کے لیے نکال دی جائے۔ عوام بھی ان کے خلاف سخت کارروائی کریں۔ اگر ہم ایسا نہ کرسکے تو ہمارا وجود ہی مٹ جائے گا۔ حسینہ واجد نے اپنے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا ملک ناکام ہوا تو پاکستان خوش ہوگا۔ 1975 میں ہمارے حکمران یہی کرنا چاہتے تھے اور وہ پاکستانی فورسز کا ایجنڈا ہم پر مسلط کر رہے تھے۔ حسینہ واجد نے سابق حکمران خالدہ ضیا پر الزام لگایا کہ وہ پاکستان سے محبت کرتی ہیں۔ حسینہ واجد نے روایتی نفرت انگیز تقریر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان سے محبت کرنے والوں کے لیے بنگلا دیش میں کوئی جگہ نہیں۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے‘ جسے دنیا کی کوئی طاقت حل نہیں کرسکتی۔ جس وقت بنگالیوں کے دلوں میں شیخ مجیب کی محبت پیدا کی جا رہی تھی اُس وقت پاکستانی حکمرانوں نے طاقت کے ذریعے شیخ مجیب کی محبت بنگالیوں کے دلوں سے نکالنے کی بہت کوشش کی لیکن وہ یہ محبت نہیں نکال سکے۔ سقوط ڈھاکا کے باوجود کئی برس تک بنگالیوں میں پاکستان کی محبت دلوں اور زبانوں پر بھی نظر آتی تھی لیکن خالدہ ضیا کی حکومت کے خاتمے کے ساتھ ہی شیخ حسینہ واجد کے اقدامات نے لوگوں کو پاکستان سے کسی بھی تعلق کے اظہار سے روک دیا یا روکنے کی کوشش کی۔ شیخ حسینہ واجد دو مرتبہ حکومت میں آچکی ہیں اور تیسری مرتبہ بھی پوری تیاری ہے لیکن یہ بات یقینی ہے کہ حسینہ واجد ایک بنگالی کے دل سے بھی پاکستان کی محبت نہیں نکال سکیں گی۔ پاکستان کی محبت شیخ مجیب‘ الطاف حسین یا کسی شخصیت کی محبت نہیں بلکہ ایک نظریہ کی محبت ہے اور نظریے کی محبت کو طاقت کے ذریعے دلوں سے نہیں نکالا جاسکتا۔ کشمیر میں بھارت نے پورا زور لگا لیا لیکن پاکستان سے محبت کشمیریوں کے دلوں سے نہیں نکال سکا۔ آج بھی مقبوضہ کشمیر میں ہر موقع پر پاکستانی پرچم لہرایا جاتا ہے اور شہادت پانے والے ہر کشمیری کی میت پاکستانی پرچم میں لپیٹ کر دفن کی جاتی ہے۔ حسینہ واجد نے جو خطرناک بات کی ہے وہ بنگالی عوام سے اپیل ہے کہ وہ بھی پاکستان سے محبت کرنے والوں کے خلاف کارروائی کریں۔ اس سے پاکستان سے محبت تو کم نہیں ہوگی البتہ بنگلا دیش میں امن وامان کے مسائل پید اہو جائیں گے۔ اگر حسینہ واجد کی اپیل پر بنگالی عوام نے پاکستان سے محبت کے الزام میں کسی بھی بنگالی پر تشدد یا اسے قتل کیا تو بنگلا دیش میں بدنظمی‘ قتل و غارت ہی ہوگا۔ جس قسم کی نفسیات حسینہ واجد کی ہے اس کے نتیجے میں وہ بنگلا دیش کو بھی آگ و خون کے حوالے کر دیں گی۔ حسینہ واجد کی حکومت کے ہاتھوں گزشتہ کئی برس سے مسلسل جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو پھانسیاں اور ان کے خلاف انتقامی کارروائی کا واضح مطلب یہی ہے کہ بنگلا دیش میں نظریہ پاکستان نہ صرف زندہ ہے بلکہ یہ نظریہ ایک خوف ناک بھوت بن کر غداران پاکستان کے خاندانوں کے ذہنوں پر سوار ہے۔ افسوس ناک امر تو یہ ہے کہ پاکستانی حکمران اس حوالے سے نہایت بے حسی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہمارے وزرائے داخلہ نے جماعت اسلامی کے رہنماؤں کی پھانسیوں کو ’’بنگلا دیش کا اندرونی مسئلہ‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ اتنا سادا مسئلہ نہیں ہے۔ہم نے ان ہی صفحات پر پہلے بھی توجہ دلائی تھی کہ حسینہ واجد کی یہ نفسیات اور انتقامی ذہنیت کی کوئی انتہا نہیں ہے۔ یہ نظریہ پاکستان ہے کیا؟؟ جس کے خلاف حسینہ واجد کا غصہ ختم ہی نہیں ہو رہا ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس نے دنیا کی تاریخ میں دوسری نظریاتی مملکت کو جنم دیا تھا۔ اس نظریے کے خلاف انگریز، گاندھی، ہندو انتہا پسند اور کم عقل مسلمان سب ہی نے اپنا حصہ ڈالا تھا لیکن اس نظریے نے اپنا راستہ نکالا اور پاکستان وجود میں آگیا۔ حسینہ واجد نے دراصل انتخابی حکمت عملی کے تحت بنگالی قومیت کو آواز دی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ اسے نفرت کے ووٹ زیادہ سے زیادہ ملیں۔ یہی حکمت عملی مودی نے بھارت میں اختیار کر رکھی ہے۔ گائے کے گوشت کا مسئلہ ہو یا پاکستانی پرچم کا باوندے ماترم گانے کی پابندی ہر مسئلے کے پیچھے اس نظریۂ پاکستان کا خوف ہے۔ ممکن ہے حسینہ واجد کو زبان کی بنیاد پر کچھ ووٹ زیادہ مل جائیں لیکن حسینہ نے نظریہ پاکستان، کو بنگالیوں کے دلوں میں دوبارہ زندہ کرنے کا اقدام اٹھایا ہے۔ یہ نظریات کبھی طاقت سے نہیں دبائے جا سکتے۔ اور دلوں سے تو ہرگز نہیں نکالے جا سکتے۔ سوویت یونین کے آہنی پردے نے بھی 75 برس سے زیادہ عرصے تک اسلام اور نظریے کو دبا کر رکھا لیکن 1989ء میں افغان مجاہدین کے ہاتھوں شکست نے تاش کے پتوں کی طرح پوری یونین کو بکھیر کر رکھ دیا اور اس آہنی پردے کے پچھے سے چھ اسلامی ریاستیں نکل کر آگئیں۔ وہاں قرآن محفوظ، حقائق موجود اور اسلام زندہ رہا۔۔۔ حسینہ واجد کی شکل تو یہ ہے کہ بنگالی 90 فیصد سے زیادہ مسلمان ہیں اور مسلمان کے دل سے نظریہ پاکستان نہیں نکالا جا سکتا۔ حال ہی میں کشمیر کے مجاہد رہنما سید علی گیلانی نے ایک بڑے اجتماع میں خطاب کے دوران کہا کہ ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ ہم پاکستان سے محبت کرتے ہیں اس پر انہوں نے دس منٹ تک یہی نعرہ لگوایا کہ اسلام ہمارا دین ہے اور نظریہ پاکستان اسلام ہے۔ اس لیے ہم پاکستانی ہیں پاکستان ہمارا وطن ہے۔ کیا بگاڑ لیا دس لاکھ فوج نے ان کا۔۔۔ شیخ حسینہبھی اپنی سی کر لیں۔ مسئلہ تو ان کا ہے جو پاکستانی اسمبلیوں میں اور کابینہ میں حلف اٹھاتے وقت اسلام اور نظریۂ پاکستان سے وابستگی کی قسم کھاتے ہیں اس کے وفا دار رہنے کا اعلان کرتے ہیں۔ جھوٹا حلف اٹھانے پر تو ان کو نا اہل قرار دیا جانا چاہیے۔ ایک اور افسوس ناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس ملک پاکستان میں جو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا اس میں اسلام کو اجنبی بنا دیا گیا ہے۔ مارشل لا سیکولر لا، جمہوری لا، اور منافقت لا، ان سارے قوانین اور طریقوں کو اپنا لیا گیا لیکن پاکستان میں اسلامی قوانین کے خلاف حکمران اور مغرب و سیکولر قوتوں کے آلہٰ کاروں نے حسینہ واجد اور مودی سے بھی بڑا محاذ بنا رکھا ہے۔ ان کو بھی یہاں کی اسمبلیوں اور حکومتوں سے نکالنے کی ضرورت ہے تاکہ حسینہ واجد کو بھی کوئی ٹھوس جواب دیا جاسکے۔پاکستان سے حسینہ واجد کی کھلی نفرت پر اب وہ پاکستانی کیا کہیں گے جو خوشی خوشی ڈھاکا جا کر نفرت کی اس دیوی سے تغمے اور انعامات لے کرآئے۔ عاصمہ جہانگیر تو اب نہیں رہیں لیکن حامد میر ضرور اس کا جواب دیں۔ حسینہ واجد نے ان بنگالیوں کے لیے بھی کانٹے بوئے ہیں جو پاکستان میں ہیں۔