بے لاگ احتساب کا بیرو میٹر؟

310

قومی احتساب بیورو (نیب) نے جنرل پرویز مشرف کے خلاف آمدن سے زاید اثاثوں کی درخواست پر تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ انعام الرحیم نامی ایک شہری نے نیب میں یہ درخواست دائر کی تھی مگر نیب نے اسے خارج کر دیا۔ جس کے بعد درخواست گزار نے اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کرکے نیب کے لیے تحقیقات کا عدالتی حکم حاصل کیا تھا۔ عدالتی حکم کی پیروی میں نیب نے انعام الرحیم کی درخواست قبول کرتے ہوئے جنرل مشرف پر آمدن سے زاید اثاثوں کے الزام کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے پہلے ایک عدالتی کارروائی کے دوران جنرل پرویز مشرف کی جائداد کی ضبطی کا حکم دیا گیا تھا۔ ان فیصلوں سے پہلے ہی جنرل پرویز مشرف کی طرف سے وطن واپس آکر مقدمات کا سامنے کرنے پر آمادگی ظاہر کی گئی تھی اور اس سلسلے میں وزارت داخلہ سے جنرل پرویز مشرف کی سیکورٹی یقینی بنانے کی درخواست کی گئی تھی۔ وزارت داخلہ کی طرف سے سیکورٹی فراہم کرنے کے بارے میں انہیں کورا جواب دیا گیا تھا۔
جنرل پرویز مشرف پر عدالتوں میں کئی مقدمات زیر سماعت ہیں۔ وہ عدالتوں میں اپنی پیشی کو یقینی بنانے کے بجائے مفرور ہو چکے ہیں۔ جنرل مشرف کمر درد کا بہانہ بنا کر ملک سے رخصت ہوئے تھے مگر ملک کی فضاؤں سے نکلتے ہی ان کا درد کافور ہو گیا اور وہ کبھی کسی محفل میں ٹھمکا لگاتے ہوئے پائے گئے تو کبھی کسی ہال میں لیکچر دیتے ہوئے دیکھے گئے۔ وہ اکثر ٹی وی چینلوں کو انٹرویو دیتے ہیں جہاں وہ زبان اور اعصاب پر پوری طرح کنٹرول رکھے ہوئے معلوم ہونے کے علاوہ جسمانی صحت کے اعتبار سے بھی اچھی حالت میں دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی حالت سے کسی طور بھی ایک ایسے شخص کی تصویر نہیں اُبھرتی جو بغرضِ علاج اور بہ حالت مجبوری دور دیس براجمان ہو بلکہ وہ ہر بار پہلے سے زیادہ چاق وچوبند اور متحرک نظر آتے ہیں۔ یوں بھی کمانڈو ہیں اور کمانڈو بھی ایسے کہ جن کا تکیہ کلام ہی یہ رہا ہو کہ: ’’میں ڈرتا ورتا کسی سے نہیں‘‘۔ اب وہ عدالتی چکروں سے ڈر کر ہی بیرون ملک سدھارے ہوئے ہیں۔ یہ اچھا ہے ملک میں ان کے خلاف عدل اور احتساب کا عمل جاری ہے۔ اس عمل کو آخر کار منطقی انجام تک پہنچنا ہے کیوں کہ جنرل پرویز مشرف کا احتساب اور جواب دہی ملک میں احتساب، انصاف اور عدل کا بیرومیٹر بن چکا ہے۔ ایک سیاسی گھرانہ یہ باور کراچکا ہے کہ احتساب صرف انہی کا ہورہا ہے یا یہ عمل محض سیاست دانوں تک محدود ہے۔ وہ یکساں احتساب اور مساوی عدل کے لیے جنرل پرویز مشرف کا احتساب چاہتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے احتساب کا مطالبہ قطعی غلط بھی نہیں کیوں کہ یہ شخصیت ایک عشرے تک ملک کے سیاہ وسفید کی مالک رہی ہے۔ ان کے دور کے ساتھ پاکستان اور پاکستانیوں کی بہت تلخ داستانیں اور یادیں وابستہ ہیں۔ نوازشریف اور آصف زرداری حکمران رہے ہیں تو انہیں جوابدہی اور حساب کتاب کے لیے تیار رہنا چاہیے اور اس پر ناک بھوں چڑھانے کی چنداں ضرورت نہیں مگر ایک فوجی حکمران کے طور پر جنرل پرویز مشرف کا حال احوال جانچنا اور اس کی تحقیق کرنا بھی ناگزیر ہے۔ ان کو اقتدار میں لانے والے وردی پوش ساتھی تھے اور فوج نے معاملات اُلجھ جانے کے بعد بطور ادارہ اقتدار کی باگیں سنبھالنے کا فیصلہ کیا تھا مگر جب وہ اقتدار میں آگئے تو ان کی پہلی زد ہی انہی جرنیلوں پر پڑی جو ہوا میں معلق جنرل مشرف کے اقتدار کی زمین ہموار کرنے میں پیش پیش تھے۔ اقتدار سنبھالنے کے بعد جنرل مشرف نے حکمرانی میں اپنے دوستوں، کلاس فیلوز اور گلاس فیلوز کو شریک کر لیا تھا۔ گلاس فیلوز کی اصطلاح انہی کے دور اقتدار میں عام ہوئی تھی۔
ایک جرنیل جب اقتدار میں آتا ہے تو پھر وہ دنیا کے ہر کام کے لیے فوج کی مشاورت اور حکم کا پابند نہیں ہوتا۔ یوں بھی جنرل مشرف چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نہیں تھے انہوں نے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ پسند کیا تھا۔ صدر رفیق تارڑ کی رخصتی کے بعد انہوں نے صدر کا لقب اپنا لیا تھا۔ حکمرانی کے منصب پر بیٹھنے والا کوئی شخص مقدس نہیں ہوتا۔ عوامی عہدے اور قومی خزانے کا مالک ومختار ہر حکمران اور ذمے دار اپنے اعمال وافعال کی جواب دہی کا پابند ہے۔ اس کی امانت ودیانت کا جائزہ لینا ضروری ہوتا ہے۔ مسلمان معاشرے میں احتساب کا آغاز ہی حکمران سے ہوتا ہے۔ جمہوریت میں بھی احتساب کا تصور عدل فاروقی سے لیا گیا ہے۔ اس لیے یہاں کوئی مقدس گائے نہیں ۔ ہر بااثر شخص کو ہمہ وقت احتساب کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ نیب نے جنرل پرویز مشرف کے اثاثوں کی چھان بین کا فیصلہ کرکے اچھا قدم اُٹھایا ہے۔ یہ عمل کسی مصلحت اور چودھری شجاعت کے ’’مٹی پاؤ‘‘ فارمولے کی نذرہونے کے بجائے منطقی انجام تک پہنچنا چاہیے۔ محمود وایاز کی طرح ایک ہی صف میں کھڑے ہونے کے انداز میں نواز شریف، آصف زرداری اور جنرل پرویز مشرف کو ایک ہی عدالت کے کٹہرے میں نظر آنا چاہیے۔