دانت بڑی نعمت ہیں

668

حکیم راحت نسیم سوہدروی
دنیا بھر میں دانتوں کے امراض میں بڑی تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ جس کی وجہ ہمارا طرز زندگی اور غذائی عادات میں تبدیلی ہے۔ دانتوں کے امراض کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فاسٹ فوڈ کے بڑھتے ہوئے رجحان، کاربونیٹیڈ مشروبات، ملاوٹ شدہ اور ناقص غذا اور منہ کی نامناسب صفائی دانت گرنے اور دانتوں کے امراض بڑھنے کی بڑی وجہ ہے۔
کہا جاتا ہے کہ صحت انسان یعنی دانتوں کی صحت و تندرستی کی علامت ہے۔ دانت صحت مند نہ ہوں تو انسان صحت مند نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غذا نہیں کھا سکتا اور قدرت کی بے شمار نعمتوں سے محروم ہوجاتا ہے۔ خوبصورت، چمکدار اور مضبوط دانت قدرت کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ یہ ہمیں غذا کھانے کے ساتھ دیگر کئی فوائد دیتے ہیں۔
ہماری زبان منہ میں سنبھلی رہتی ہے اور منہ بھرا بھرا لگتا ہے اس کے علاوہ یہ ہمارے لعاب دہن کو بھی کنٹرول کرتی ہے۔ خوبصورت مسکراہٹ اس وقت اور خوبصورت لگتی ہے جب مسکراہٹ کے ساتھ چمک دار دانت بھی نگاہ کے سامنے آتے ہیں۔ ایسے لوگ جلد مقبول ہو جاتے ہیں۔
گندے پیلے اور کیڑا لگے ہوئے دانت بدنما تو لگتے ہی ہیں مگر ملنے والا بھی ناپسندیدگی کے باعث اپنی بات جلد ختم کردیتا ہے۔ یہی نہیں، یہ ہمیں اور بہت سے امراض میں مبتلا کردیتے ہیں۔ یوں کہا جاسکتا ہے کہ دانتوں کی صحت و تندرستی ہمیں صحت مند بناتی ہے۔ مسکرا کر ملنے اور امراض سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ دانت خوش نما اور صحت مند ہوں۔
ہر انسان کی خواہش ہے کہ اس کے دانت خوش نما اور صحت مند ہوں۔ مگر دیکھنے میں آتا ہے کہ یہ وقت گزرنے کے ساتھ اپنی قدرتی سفید رنگت سے محروم ہونے لگتے ہیں۔ وقت گزرنے پر سفید رنگ کا کاغذ بھی پیلا ہونے لگتا ہے تو پھر بھلا دانتوں کو رنگت بدلنے سے کون روک سکتا ہے۔ وقت گزرنے پر رنگت کا بدلنا فطری اور قدرتی امر ہے مگر ہم دانتوں کی صحت کا خیال کرکے ان کی چمک اور مضبوطی عرصہ تک قائم رکھ سکتے ہیں۔ قدرتی دانتوں کا متبادل مصنوعی دانت نہیں ہوسکتے۔ قدرتی دانتوں کی قدر و قیمت وہی لوگ کرسکتے ہیں جن کے پاس یہ نعمت نہیں ہے۔
دانتوں کی چمک انمل (Enamel) کے باعث ہوتی ہے۔ یہ دانتوں کی پہلی ظاہری حفاظتی سطح ہے جو سخت اور کرسٹل نما ہوتی ہے۔ دوسری تہہ ڈینٹین ہے جو نرم ہوتی ہے۔ درمیانی حصے میں گودا ہوتا ہے جہاں وہ اعصابی رگیں ہیں جو محسوسات کو دماغ تک پہنچاتی ہیں۔ عمر کے اضافے اور مرض شوگر کے باعث پہلی ظاہری سطح پر انمل صاف شفاف ہونے لگتا ہے تو نیچے کی سطح پر پیلاہٹ نظر آنے لگتی ہے۔
پلیگ جو کہ نرم اور گیلا مادہ ہر وقت دانتوں کے ساتھ چپکا رہتا ہے۔ یہ اس قدر مضر ہے کہ دانت صاف کرنے پر بھی نہیں جاتا۔ مٹھاس کا ہمارے منہ میں موجود بیکٹیریا سے جو باہمی ردعمل ہوتا ہے اس سے لیکٹیک ایسڈ پیدا ہوتا ہے جو پلیگ کے ذریعے حملہ آور ہو کر مزید موٹا اور تہ در تہ دانت سے چپک جاتا ہے اور سخت ہو کر ٹارٹری کی صورت اختیار کرلیتا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ دانتوں کے قدرتی کیلشیم اور فاسفورس اور دیگر نمکیات کم ہو کر دانتوں کو کمزور کردیتے ہیں۔ اسی طرح منہ میں موجود بیکٹیریا جن میں مفید اور مضر دونوں ہوتے ہیں۔ مضر بیکٹیریا طاقتور ہوجاتا ہے اکثر یہ بیکٹیریا مسوڑھوں کے نیچے پرورش پاتا ہے جو غذا کے باقی رہ جانے والے ذرات سے مل کر تیزاب لیکٹیک ایسڈ بناتے ہیں جس سے دانت کمزور، مسوڑھے خراب اور نمل (چمک) ختم ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زیادہ مٹھائیاں کاربونیٹیڈ کا استعمال کرنے والوں کے دانت جلد پیلے ہوجاتے ہیں۔
منہ کی ایک عام بیماری جسے ہمارے ہاں معمولی سمجھا جاتا ہے ’کیئریز‘ ہے جس کو ماس خورہ یا دانتوں کے چھوٹے چھوٹے مساموں میں پان، چائے، کافی، جوس، کولا اور دیگر چمک دار اشیا کا رنگ جمع ہو کر انمل (Enamel) کو ختم کرتا ہے۔ پان، چھالیہ، تمباکو نوشی اور بعض انٹی بائیوٹک (ضد حیوی) اور یہ بھی کام کرتی ہیں۔
شہروں میں پائی جانے والی آلودگی سے بھی دانتوں کی رنگت متاثر ہوتی ہے مگر سب سے زیادہ نقصان چاکلیٹ، کافی اور تمباکو سے ہوتا ہے۔ ان میں غذائی طور پر ایسے رنگ ہوتے ہیں جو دانتوں پر چپک جاتے ہیں اسی طرح کئی ادویہ اور منہ کی صفائی کرنے والے غراروں میں وہ کیمیائی اجزا ہوتے ہیں جو دانتوں کا رنگ خراب کردیتے ہیں اور کمزور کردیتے ہیں۔ ہم جو بھی غذا کھاتے ہیں اس میں نشاستہ شامل ہوتا ہے۔ یہ نشاستہ منہ کے اندر ہی ہضم ہونا شروع ہوجاتا ہے۔ مٹھاس بیکٹیریا کی دوست ہے۔ بیکٹیریا ان کے ساتھ مل کر ایسے تیزاب بناتا ہے جو منہ کو بدبودار کرکے دانتوں کے امراض پیدا کرتا ہے جس سے دانت کمزور اور پیلے ہوتے ہیں۔ نیز دل کی شریانیں بند ہوسکتی ہیں۔
دانت دو طرح کے ہوتے ہیں۔ پہلے یہ دودھ کے دانت کی صورت آتے ہیں۔ پھر اپنے قدرتی وقت پر گر کر پکے دانت کی صورت نمودار ہوتے ہیں۔ دانت قدرت کا حسین تحفہ ہے ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے بچوں کو شروع ہی سے دانتوں کی حفاظت کی عادت ڈالنی چاہیے ہم درج ذیل تدابیر اختیار کرکے دانتوں کی صحت اور چمک کو طویل عرصے تک قائم رکھ سکتے ہیں۔
ایسی غذا استعمال کی جائے جس میں ریشہ (Fiber) زیادہ ہو۔
میٹھی اشیا نمکین سے پہلے کھائی جائیں تا کہ مٹھاس ان کے ساتھ معدے میں پہنچ سکے اور مٹھاس کو پلاگ کی صورت میں دانتوں پر جمنے کا موقع نہ ملے۔
کاربونیٹیڈ بازاری مشروبات سے احتیاط کریں اور ان کے بجائے قدرتی مٹھاس والی اشیا استعمال کریں۔ پان، چھالیہ اور چائے کا استعمال کم سے کم کریں۔
چپکنے والی اور لیس دار غذائوں سے احتیاط کی جائے۔
روزانہ صبح و شام دانتوں کی صفائی کریں۔ مسواک سے کریں تو بہتر ہے بصورت دیگر برش کریں اور سونے سے قبل ضرور صاف کریں۔ ہر دو تین ماہ بعد برش تبدیل کریں۔ برش ہمیشہ نرم اور چھوٹے سرے والا استعمال کریں۔
برش کرنے کے بعد ریشمی دھاگوں سے دانتوں کی درزوں کو صاف کریں۔
18 سال تک عمر کے نوجوان، حاملہ خواتین، دودھ پلانے والی مائیں اور غذائی کمی کا شکار لوگ اور ذیابیطس (شوگر) کے مریض دانتوں کی صفائی پر خصوصی توجہ دیں۔
بچوں کو چاکلیٹ اور ٹافیوں سے دور رکھیں۔ کولا مشروبات سے دور رہیں۔
کچی سبزیاں اور سلاد کا استعمال بھی دانتوں کی تندرستی کے لیے فائدہ مند ہے۔
مناسب مائوتھ واش کا استعمال کریں۔
اگر دانتوں کی رنگت میں تبدیلی محسوس کریں یا ہلکا درد ہو، دانتوں کو ٹھنڈا گرم لگے، مسوڑھوں میں سوجن ہو یا خون آنے لگے تو دانتوں کے ماہر رجوع کریں۔
دانتوں اور مسوڑھوں کی صحت کے لیے برابر وزن کھانے کا نمک اور پھٹکڑی کو ملا کر پائوڈر بنالیں اور دانتوں پر ملا کریں۔
طب یونانی کا معروف سنون مقوی دندان کا بطور منجن بھی رات کو دانتوں پر مل کر سو جانا مفید ہے۔