اسلام کا حقیقی چہرہ اور روشن پیغام

356

امام کعبہ محترم جناب ڈاکٹر صالح بن محمد ال طالب اہم دورے پر پاکستان پہنچے‘ ان کے بعد مصر کے مفتی اعظم جناب ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم بھی پانچ روزہ دورے پر اسلام آباد پہنچے‘ اور یوم پاکستان کی فوجی پریڈ بھی دیکھی‘ ان دونوں عالمی شخصیات کا دورہ پاکستان انتہائی غیر معمولی اہمیت کا حامل تھا‘ دورے کا بنیادی مقصد خود کش حملوں کو غیر اسلامی قرار دیے جانے کے فتوے کی حمایت اور تائید کے علاوہ اس پیغام کو عالمی سطح پر اجاگر کرنا ہے پاکستان کے دورے پر معزز مہمان نے نہایت فہم اور فراست پر مبنی گفتگو کی‘ مفتی اعظم مصر ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم نے کہا ہے کہ دُنیا میں امن کے لیے دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جدوجہد کرنا ہو گی، بے گناہ لوگوں کا قتل تمام مذاہب میں حرام ہے۔ ہمیں انتہا پسندی کے خلاف اسلام کا روشن اور حقیقی چہرہ سامنے لانا ہو گا، اسلام امن و سلامتی کا دین ہے، دہشت گرد سوشل میڈیا کے ذریعے اپنا ایجنڈا پھیلانے کی سازشیں کر رہے ہیں جس کا تدارک ضروری ہے۔ میڈیا وار میں اسلام کے بارے میں غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے۔ اُن کا کہنا تھا اسلام کے نام پر کئی جھوٹی تنظیمیں بنائی گئی ہیں جن کا اسلام سے دور کا تعلق نہیں۔ اسلام ایک بین الاقوامی دعوت کا نام ہے یہ امن و سلامتی کا نام لے کر دُنیا میں پھیلا، جس نے پہلی اور بعد والی تہذیبوں کو اپنے ساتھ شامل کیا، اچھی رسوم کو برقرار رکھا اور بُری رسوم کا خاتمہ کیا۔ حضور نبیء رحمتؐ کی بعثت کا مقصد انسانی کردار کو بہترین اور عمدہ ترین اخلاق والا بنانا تھا۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے مقابلے کے لیے مصر نے اپنے بیٹے قربان کیے اور کر رہا ہے یہ بات انہوں نے وزارتِ مذہبی امور کے زیر اہتمام ’’تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں روا داری کا فروغ‘‘ کے موضوع پر منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس میں خطاب کرتے ہوئے کہی‘ اعلیٰ ترین مقاصد کی حامل اپنی نوعیت کی یہ بہترین کانفرنس تھی چند دِنوں کے وقفے کے دوران عالم اسلام کی دو جیدّ شخصیات پاکستان میں خطاب کر چکی ہیں اور انہوں نے اپنے علم و فضل سے پاکستان کے عوام کو متاثر کیا ہے اِس سے پہلے امام کعبہ الشیخ صالح بن محمد آل طالب پاکستان تشریف لائے تھے جہاں انہوں نے اہل حدیث کانفرنس سے خطاب کیا اور مختلف شہروں کی مساجد میں نمازوں کی امامت کی اور عوام الناس کو اسلام کی روشن تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی تلقین کی ان کے بعد مفتی اعظم مصر پاکستان تشریف لائے‘ انہوں نے اپنے عالمانہ خطاب میں پاکستانی مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ دُنیا کے سامنے اسلام کا روشن چہرہ پیش کریں، اسلام امن و سلامتی کا دین ہے اور جو افراد اور تنظیمیں جدید دور کے میڈیا کو استعمال کر کے تصورِ اسلام کو مسخ کر رہی ہیں اُن کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔
دہشت گردی پوری دُنیا میں پھیلی ہوئی ہے اور مسلمانی کے دعویدار جو لوگ دُنیا میں اسلام کے نام پر خون بہا رہے ہیں وہ اسلام کے نمائندے ہیں اور نہ مسلمانوں کے، لیکن اُن کی وجہ سے اسلام اور مسلمان بدنام ضرور ہو رہے ہیں، اِس لیے ایسی تنظیموں اور افراد کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔ دُنیا کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام کا نام لینے والی بعض تنظیموں نے مسلمان ممالک کو غیر مسلموں سے بھی زیادہ نقصان پہنچایا ہے انہی کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کے کئی ملک تباہ و برباد ہو گئے اور اِن ممالک میں تہذیب و تمدن کی قدیم علامتیں بھی مٹ گئیں، عراق اور شام میں داعش نے شہروں کے شہر کھنڈرات کا ڈھیر بنا دیے، لاکھوں لوگ اُن کی سفاکیت کی بھینٹ چڑھ گئے۔ ان کی سرگرمیاں شام و عراق تک محدود نہیں، اب وہ افغانستان میں بھی آگ اور خون کا کھیل کھیل رہی ہیں اور مقدس مقامات کے ساتھ ساتھ اسپتال اور تعلیمی ادارے بھی اُن کی دہشت گردی سے بچے ہوئے نہیں ہیں۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے قیمتی جانوں کی قربانی دے کر اپنی سرزمین سے دہشت گردوں کا صفایا کر دیا ہے، جنہوں نے یہاں بھی اپنے قدم جمانے کی ناکام کوشش کی تھی، ابتدائی کامیابیوں کے بعد اُن کے قدم اُکھڑ گئے اور اب ایسی تنظیموں کے افراد یا تو روپوش ہیں یا اُن کے بچے کھچے عناصر افغانستان میں اپنے ٹھکانے بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر افغان حکومت اِس سلسلے میں پاکستان کے ساتھ بھرپور تعاون کرے تو دونوں ممالک اُن کا کامیابی سے صفایا کر سکتے ہیں یہ خطہ اس وقت جس طرح کے حالات سے گزر رہا ہے اور جو خطرات اسے درپیش ہیں‘ ان سے نمٹنے کے لیے داخلی اتحاد بہت ضروری ہے لہٰذا ترجیح کی درست سمت اختیار کرتے ہوئے پاکستان نے افغانستان سے رابطہ کیا اور قومی سلامتی کے مشیر لیفٹیننٹ جنرل(ر) ناصر جنجوعہ نے افغان صدر اشرف غنی سے ملاقات کی اور انہیں مفید تجاویز دی ہیں جن پر اگر صدق دلی سے عمل ہو جائے تو دونوں ممالک کے حق میں بہت مفید ہو سکتا ہے اور دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے میں بڑی مدد مل سکتی ہے۔
سیکورٹی اقدامات کے ساتھ ساتھ پاکستان علمی اور ثقافتی سطح پر بھی دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے قائدانہ کردار ادا کر رہا ہے، مفتی صاحب نے کہا ہے کہ وہ پیغام پاکستان کا عربی زبان میں ترجمہ کرائیں گے اور اسے مصر میں وسیع پیمانے پر تقسیم کیا جائے گا تاکہ مصری عوام اِس ضمن میں پاکستانی علماء کے موقف اور کردار سے بخوبی واقف ہو سکیں۔ مصر اور سعودی عرب بھی دہشت گردی کا شکار ہیں اور موخر الذکر نے اس کے مقابلے کے لیے عالم اسلام کا مشترکہ فوجی اتحاد بھی بنایا ہے، جس کا بنیادی مقصد ان قوتوں کا مقابلہ ہی ہے، جنہوں نے دہشت گردی کے لیے جدید ترین ہتھیار بھی حاصل کر لیے ہیں اور باقاعدہ فوجی تربیت لے کر دہشت گردی کو ایک قسم کی جنگ کی شکل دے دی ہے، اِس لیے ناکافی ہتھیاروں اور محدود تربیت کے ساتھ ایسے گروہوں کا مقابلہ کرنا مشکل ہے اِس لیے سعودی حکومت نے باقاعدہ فوجی اتحاد کی داغ بیل ڈالی ہے، جس کی کمان جنرل راحیل شریف کو سونپی گئی ہے، جنہوں پاکستان سے دہشت گردی کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ دہشت گردی کے خلاف پاکستان نے جو کردار ادا کیا ہے عمومی طور پر اُسے دُنیا بھر میں سراہا گیا ہے، کیوں کہ شاید ہی کوئی ایسا ملک ہوگا جس نے اتنے طویل عرصے تک اِس عفریت کو بھگتا اور اس کا مقابلہ کیا ہو۔ دُنیا میں جن جن ممالک میں دہشت گردی ہوئی وہ اِکا دُکا یا چند واقعات تک محدود رہی، انہوں نے فوری طور پر ہر سطح پر ایسے اقدامات کر لیے جن کی وجہ سے ایسے واقعات پر قابو پانا ممکن ہو گیا، لیکن پاکستان کو عشروں تک اس کا مقابلہ کرنا پڑا، تب کہیں جا کر اُسے سکھ کا سانس نصیب ہوا، اب بھی پاکستان میں کبھی کبھار دہشت گردی کے واقعات ہو جاتے ہیں جس خطے میں پاکستان واقع ہے دہشت گردوں کے گروہ اور تنظیمیں اس جگہ زیادہ سرگرم عمل ہیں۔ امریکا نے جہاں جہاں دہشت گردی کے خلاف جنگ چھیڑی اس کا آغاز زیادہ تر ہوائی حملوں سے ہوا، دہشت گرد جوابی ہوائی حملے تو نہیں کر سکتے تھے امریکا کا ساتھ دینے والے ممالک کو نشانہ بنانا آسان سمجھا، چناں چہ اُنہیں اپنا ہدف بنا لیا، لیکن بدقسمتی یہ ہوئی کہ پاکستان نے جس ملک کے لیے یہ طویل جنگ لڑی وہ ابھی تک اس کے کردار سے مطمئن نہیں اور اب تو صدر ٹرمپ نے کولیشن سپورٹ فنڈ بھی روک دیے ہیں یا اُن کی ریلیز پر کڑی شرائط عائد کر دی ہیں ان شرائط اور خطرات کا مقابلہ ہم پیغام پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل کرکے ہی کرسکتے ہیں۔