سیاسی چابی والے کھلونے

344

اب تو خیر ریموٹ کنٹرول سے چلنے والے کھلونے مارکیٹ میں آگئے ہیں۔ بچے اپنی جگہ پر بیٹھے بیٹھے ریموٹ کنٹرول کے ذریعے جہاز اُڑا سکتے ہیں، ٹرین چلا سکتے ہیں، کاروں کی ریس میں حصہ لے سکتے ہیں۔ بندر، بھالو، شیر، چیتا، ہرن، ہاتھی۔۔۔ غرضیکہ جنگل کے سارے جانور بھی بچوں کے ایک اشارے پر دوڑنے، بھاگنے لگتے ہیں۔ اِن کھلونوں سے کھیلنے کے لیے اب ان میں چابی بھرنے کی ضرورت پیش نہیں آتی لیکن ایک زمانہ تھا جب یہ سارے کھلونے چابی سے چلا کرتے تھے، پہلے ان میں چابی بھری جاتی تھی پھر یہ حرکت میں آتے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کے تاحیات قائد اور نااہل سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نے عمران خان اور زرداری کو چابی والے کھلونے قرار دے کر اُس زمانے کی یاد تازہ کردی ہے جب پاکستان میں واقعی چابی والے کھلونوں کا رواج تھا۔ پھر جدید ٹیکنالوجی کی بدولت بچوں کے ہاتھ میں ریموٹ کنٹرول والے کھلونے آگئے اور وہ کھلونوں میں بار بار چابی بھرنے کی اذیت سے آزاد ہوگئے۔ لیکن میاں صاحب کے بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ سیاسی کھلونوں میں اب بھی چابی بھرنے کا رواج چلا آرہا ہے۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ ’’مستند ہے ان کا فرمایا ہوا‘‘ کیوں کہ وہ خود بھی سیاسی کھلونا رہے ہیں اور چابی سے چلا کرتے تھے۔ وہ سیاسی کھلونے کی حیثیت سے ایک مدت تک بادشاہ گر قوتوں کا دل بہلاتے رہے۔ جنرل ضیا الحق کو تو وہ اتنے پسند آئے تھے کہ انہوں نے اپنی عمر بھی میاں صاحب کو لگ جانے کی دُعا دے دی تھی۔ جنرل صاحب تو ایک حادثے کا شکار ہو کر اپنے ربّ کے پاس جا پہنچے اور میاں صاحب کئی سال تک جنرل صاحب کی برسی پر اُن کا مشن پورا کرنے کا راگ الاپتے رہے۔ یہ شاید اس چابی کا کرشمہ تھا جو انہیں دی گئی تھی۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کھلونے سے کھیلنے والا بچہ کھلونے میں چابی بھر کر غائب ہوجاتا ہے اور کھلونا چلتا رہتا ہے۔ میاں صاحب کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ پیش آیا تھا۔ کھلونے کبھی ٹوٹ بھی جاتے ہیں، کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کھیلنے والا اس سے اُکتا جاتا ہے اور اسے اُٹھا کر ایک طرف رکھ دیتا ہے۔ بہرکیف صورتِ حال کچھ بھی ہو میاں نواز شریف طویل عرصے تک اقتدار میں رہنے کے بعد چابی والے کھلونے کی حیثیت کھوبیٹھے، پھر ان پر پاناما لیکس کی افتاد آن پڑی، اقتدار سے بے دخل ہوئے اور اب عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں۔
منظرنامہ بدل گیا ہے۔ کھیلنے والوں نے نئے سیاسی کھلونے خرید لیے ہیں اور وہ اب اپنی مرضی کے مطابق ان سے کھیل رہے ہیں۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد ایک نیا سیاسی کھلونا منظر عام پر آیا۔ اس کا دعویٰ تھا کہ اب کے اس کی باری تھی لیکن میاں نواز شریف دھاندلی سے اقتدار پر قابض ہوگئے۔ پھر اس نے مبینہ دھاندلی کے خلاف زبردست تحریک چلائی۔ اس نے اپنی تحریک کو موثر بنانے کے لیے اپنے سیاسی کزن شیخ الاسلام علامہ طاہر القادری کو کینیڈا سے بلالیا۔ دونوں نے مل کر اسلام آباد میں دھرنا دیا اور امپائر کی اُنگلی اُٹھنے کا انتظار کرنے لگے۔ اُنگلی نہ اُٹھی تو شیخ الاسلام مایوس ہو کر کینیڈا واپس چلے گئے، البتہ سیاسی کھلونا المعروف کپتان ڈٹا رہا، وہ ہر شام بنی گالہ سے اسلام آباد کے ڈی چوک میں طلوع ہوتا۔ اپنی تقریر میں حکومت کو للکارتا، حکومت اُن دنوں میاں نواز شریف کی تھی، اس لیے وہی کپتان کا ٹارگٹ ہوتے، وہ انہیں لتاڑنے اور اپنے پرجوش کارکنوں کے دلوں میں اُمید کا دیا جلانے کے بعد اگلی شام تک کے لیے رخصت ہوجاتا۔ یہ سلسلہ کئی ماہ تک چلتا رہا، پھر پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں دہشت گردی کا دلخراش واقعہ پیش آگیا اور اس کے سوگ میں کپتان کو دھرنا لپیٹنا پڑا۔ ورنہ اندازہ یہی تھا کہ دھرنا چلتا رہتا، حکومت بھی چلتی رہتی اور امپائر کی انگلی اُٹھنے کا نام نہ لیتی۔ اب کپتان کا خیال ہے کہ وہ سیاست کے میدان میں سب سے اہم وکٹ تو گرا ہی چکا ہے اس لیے اب اسے اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ لیکن ستم ظریفی ملاحظہ ہو کہ سیاسی کھلونوں سے کھیلنے والے ایک اور سیاسی کھلونے کو چابی دے کر حرکت میں لے آئے ہیں۔ یہ وہی کھلونا ہے جس نے کھیلنے والوں کو دھمکی دی تھی کہ ان کی اینٹ سے اینٹ بجادی جائے گی۔ اس دھمکی کے بعد اسے ملک سے فرار ہونا پڑا، وہ اس وقت واپس آیا جب پرانے کھلاڑی رخصت ہوگئے تھے اور نئے کھلاڑی میدان میں آگئے تھے۔ اس نے آتے ہی نئے کھلاڑیوں سے صلح کرلی۔ کپتان اسے اپنا حریف سمجھتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ نمبروں کی گیم میں کپتان سے کہیں آگے ہے۔ سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں اس کا پلہ بھاری رہا اور کپتان کو نہ چاہتے ہوئے بھی اپنا وزن اس کے پلڑے میں ڈالنا پڑا کہ یہی اسے چابی دینے والوں کی مرضی بھی تھی۔ اب سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے انتخاب میں بھی اس کے ہاتھ کچھ نہیں آیا اور چابی سے چلنے والا نیا کھلونا المعروف زرداری اسے اپنا ہاتھ دکھا گیا۔ کپتان کا دعویٰ ہے کہ وہ زرداری کو بھی اسی طرح آؤٹ کرے گا جس طرح اس نے نواز شریف کو آؤٹ کردیا ہے۔ لیکن یہ کیسے ممکن ہوگا جب کہ نئے سیاسی منظرنامے میں کپتان اور زرداری دونوں کی نکیل ایک ہی ہاتھ میں ہے۔ یہ دونوں نواز شریف کے خلاف تو استعمال ہوسکتے ہیں لیکن شاید ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہوسکیں۔ اسی لیے کہا جارہا ہے کہ مستقبل کی منتخب سیاسی حکومت میں یہ دونوں ایک دوسرے کے حریف نہیں حلیف ہوں گے اور پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی پر مشتمل مخلوط حکومت وجود میں آئے گی۔ انتخابات پروگرام کے مطابق بروقت ہوئے اور بادشاہ گر طاقتوں نے انتخابی نتائج کو اپنے سانچے میں ڈھالا تو وہی ہوگا جس کا اندازہ لگایا جارہا ہے اور کپتان کے سارے دعوے دھرے رہ جائیں گے۔