باجوہ ڈاکٹرائن کی فوجی وضاحت

848

پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے گزشتہ بدھ کو اپنی پریس بریفنگ میں ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کی توضیح کی ہے کہ اس کا کوئی تعلق 18ویں ترمیم، عدلیہ یا این آر او سے نہیں ہے اور اس ڈاکٹرائن کا کوئی غلط مطلب نہ لیا جائے۔ جنرل آصف فوج کے ترجمان ہیں چنانچہ فوج کی طرف سے ان کی وضاحت بہت وزن رکھتی ہے اور وہ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہوگا۔ لیکن جنرل باجوہ نے گزشتہ دنوں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ایسا تاثر تو دیا ہے جس کی وضاحت یا تردید کرنے کے لیے آئی ایس پی آر کے ڈائریکٹر جنرل کو پریس بریفنگ دینا پڑی۔ جنرل آصف غفور نے زیادہ زور اس پر دیا ہے کہ مبینہ باجوہ ڈاکٹرائن کا کوئی تعلق 18ویں ترمیم سے نہیں ہے تاہم صحافیوں سے ملاقات میں اس کا ذکر ضرور آیا تھا۔ اس کے بعد کچھ صحافیوں نے مختلف مطالب نکال کر ان پر مضامین بھی لکھے اور یہ تاثر دیا کہ جنرل باجوہ 18ویں ترمیم کے خلاف ہیں یا کم از کم اس کی کچھ شقوں کو تبدیل کرنے کے خواہاں ہیں۔ ان سے یہ بھی منسوب کیا گیا کہ 18 ویں ترمیم شیخ مجیب کے چھ نکات سے زیادہ خطرناک ہے۔ یاد رہے کہ شیخ مجیب نے ان چھ نکات کے ذریعے مشرقی پاکستان میں صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کیا تھا جو آخر کار علیحدگی کا سبب بنا۔ باجوہ نے جو کہا اور ان کے الفاظ کیا تھے، لیکن اسٹیبلشمنٹ کو 18ویں ترمیم کی چندشقوں پر اعتراض ہے مثلاً محکمہ تعلیم صوبوں کے حوالے کردیا جائے اور ہر صوبہ اپنی مرضی کا نصاب تیار کرے۔ملک میں پہلے ہی یکساں نصاب تعلیم نہیں ہے اور اگر ہر صوبے کو اپنی مرضی کا نصاب تیار کرنے کی اجازت دے دی گئی تو اس سے سب سے پہلے قومی یکجہتی متاثر ہوگی جس کی پہلے ہی بہت کمی ہے۔ چنانچہ 18ویں ترمیم کی اس شق سے صوبائیت کو ہوا مل سکتی ہے۔ تعلیمی نصاب ایک بہت حساس مسئلہ ہے اور پہلے ہی اس پر کئی اعتراضات وارد کیے جاچکے ہیں۔ تعلیم کے شعبے پر قابض دین بیزار اور سیکولر عناصر موقع پا کر من مانی کر گزرتے ہیں۔ نصاب میں سے قرآن کریم کی ایسی آیتیں نکالنے کی کوشش ہو چکی ہے جن میں جہاد کا ذکر ہے۔ مشرقی پاکستان میں تو المیہ یہ تھا کہ بعض اسکولوں اور کالجوں میں اسلامیات کا مضمون پڑھانے کے لیے ہندو اساتذہ مقررتھے۔ اب اگر کسی صوبے میں کوئی سیکولر حکومت آئی تو وہ اپنی مرضی کا نصاب تیار کروائے گی جب کہ یکساں نصاب تعلیم کے ذریعے قومی یکجہتی کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ 18ویں آئینی ترمیم میں امن و امان کے معاملات بھی صوبوں کے حوالے کیے جارہے ہیں جس سے فیڈریشن کمزور ہوگی۔ اسی شق کی وجہ سے سندھ حکومت اور وفاق میں رینجرز کی تعیناتی اور اختیارات کے معاملے میں تنازع ہوتا رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو توقع ہے کہ اگر مرضی کی حکومت آگئی تو اس کے ذریعے 18ویں ترمیم کی کچھ شقوں میں ترمیم کروائی جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے نوعمر چیئرمین بلاول زرداری کئی بار کہہ چکے ہیں کہ 18ویں ترمیم کو کسی صورت چھیڑنے نہیں دیں گے۔ظاہر ہے کہ بلاول یا پیپلز پارٹی کو ان معاملات سے کوئی غرض نہیں جو 18ویں ترمیم کی وجہ سے پیش آسکتے ہیں ۔ بہرحال فوج کے ترجمان نے واضح کیا ہے کہ ’’آرمی چیف نے یہ نہیں کہا کہ 18ترمیم اچھی نہیں ہے‘‘۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی کہا کہ صوبوں کو فیصلے کرنے کے قابل بھی ہونا چاہیے۔ اس چیستاں کا مطلب کیا ہے، اس کے لیے ایک اور پریس بریفنگ کی ضرورت پڑے گی۔ سامنے کا مطلب تو یہ ہے کہ صوبے اپنے طور پر فیصلے کرنے کے قابل ہی نہیں ہیں ۔ میجر جنرل آصف غفور نے یہ بھی واضح کیا کہ پاک فوج کا این آر او سے کوئی تعلق نہیں اور انتخابات کا اعلان ہمیں نہیں الیکشن کمیشن کو کرنا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کا مطلب پرامن پاکستان ہے۔ اس وضاحت کے بعد اب باجوہ ڈاکٹرائن کی من مانی تشریح کرنے اور مختلف معانی پہنانے کا سلسلہ بند ہو جانا چاہیے۔ کسی نئے این آر او کی افواہیں بھی گردش میں ہیں تاہم آصف غفور نے کسی قسم کے تعلق کی تردید کردی ہے۔ اس سے پہلے جنرل پرویز کے دور صدارت میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں جو این آر او ہوا تھا وہ فوج کی نگرانی اور شرکت ہی سے ہوا تھا۔ اس وقت کے آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل کو بے نظیر بھٹو نے بطور ضامن شامل کیا تھا۔ اس مثال کے پیش نظر اگر کچھ عناصر پھر یہ سوچیں کہ نیا این آر او ہونے جارہا ہے تو عجب کیا ہے۔ جنرل آصف غفور نے تو فیض آباد دھرنے میں فوج کے کسی کردار کی بھی نفی کی ہے اور دھرنے والے خادم رضوی معاہدے پر عمل کے لیے آرمی چیف کی دہائی دے رہے ہیں۔