حکومت نجی شعبے کی مشاورت سے بجٹ ۱۹۔۲۰۱۸ کو حتمی شکل دینے کی کوشش کرے ۔ شیخ عامر وحید

821

پاکستان میں پارلیمانی سماعت کا ناقص نظام متفقہ پالیسی سازی کی راہ میں اہم رکاوٹ ہے۔ امتیاز گل

اسلام آباد (کامرس ڈیسک) اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر شیخ عامر وحید نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ نجی شعبے کی مشاورت سے بجٹ برائے 2018-19کو حتمی شکل دینے کی کوشش کرے جس سے معیشت کیلئے فائدہ مند نتائج برآمد ہوں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پارلیمانی سماعت کے نظام کو بہتر کرنے کے بارے میں ایک سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا جس کا انعقاد سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹیڈیز نے چیمبر کے اشتراک سے کیا۔ شیخ عامر وحید نے کہا کہ ہر سال تمام چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری اپنی بجٹ تجاویز حکومت کو بھیجتے ہیں لیکن بجٹ کو حتمی شکل دیتے وقت ان تجاویز کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے جس سے تاجر برادری میں مایوسی پیدا ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ تاجر برادری معیشت کا پہیہ چلانے اور اس کو ترقی دینے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے لہذا حکومت کو چاہیے کہ پارلیمانی سماعت کے نظام میں نجی شعبے کو بھرپور شرکت کا موقع فراہم کرے جس سے نجی شعبے کی تجاویز پر مبنی متفقہ پالیسیوں کی تشکیل کو بہتر فروغ ملے گا اور مسائل بھی جلد حل ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ معاشی پالیسیوں کی تشکیل میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تجارت و ٹیکسٹائل، قائمہ کمیٹی برائے فنانس، ریونیو و اقتصادی امور، قائمہ کمیٹی برائے صنعت و پیداور اور قائمہ کمیٹی برائے توانائی سمیت دیگر قائمہ کمیٹیوں کا کردار بہت اہم ہے

لہذا انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ ان کمیٹیوں کے اجلاسوں میں تاجر برادری کے نمائندگان کو بھی مدعو کیا جائے تاکہ وہ پالیسی سازی کے عمل کے وقت نجی شعبے کی آواز پالیسی سازوں تک پہنچا سکیں ۔ اسلام آباد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سینئر نائب صدر محمد نوید اور نائب صدر نثار مرزا نے سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹیڈیز کی طرف سے پارلیمانی سماعت کے نظام کو بہتر کرنے کے بارے میں تاجر برادری کے ساتھ مشاورت کرنے پر ان کا شکریہ ادا کیا اور اس امید کا اظہار کیا کہ تاجر برادری نے جو تجاویز پیش کی ہیں سی آر ایس ایس ان کو اپنی سفارشات کا حصہ بنائے گا۔ باصر داؤد، محمود احمد وڑائچ، خالد چوہدری، عباس ہاشمی، ناصر چوہدری، محترمہ ناصرہ علی، دلدار عباسی اور دیگر نے بھی اس موقع پر اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پارلیمانی سماعت کے نظام کو بہتر بنانے کیلئے مفید تجاویز پیش کیں۔
سمینار سے خطاب کرتے ہوئے سنٹر فار ریسرچ اینڈ سیکورٹی سٹیڈیز (سی آر ایس ایس) کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر امتیاز گل نے کہا کہ متفقہ معاشی پالیسیوں کی تشکیل کیلئے نجی شعبے کے ساتھ مشاورت بہت ضروری ہے لیکن پاکستان کا موجودہ پارلیمانی سماعت کا ناقص نظام پارلیمان اور نجی شعبے کے نمائندگان کے درمیان بات چیت کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جس وجہ سے پالیسی سازی کے عمل میں نجی شعبے کی آواز پارلیمان تک نہیں پہنچ پاتی اور ملک میں مطلوبہ معاشی اصلاحات کا عمل متاتر ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تاجر برادری اس سلسلے میں اپنی تجاویز پیش کرے کہ کس طرح پارلیمانی سماعت کا نظام بہتر کیا جائے اور یقین دہانی کرائی کہ ان کی تجاویز کو حکومت کیلئے ان کے ادارے کی سفارشات کا حصہ بنایا جائے گا تا کہ پارلیمنٹ میں مشاورتی اور متفقہ پالیسی سازی کے کلچر کو فروغ دیا جائے۔ سی آر ایس ایس کے پارلیمانی کنسلٹنٹ طاہر حنیف، پروگرام منیجر و ریسرچ فیلو ملک مصطفی اور ریسرچ فیلو صدام حسین بھی اس موقع پر ان کے ساتھ تھے۔
سی آر ایس ایس کے پروگرام منیجر و ریسرچ فیلو ملک مصطفی نے اپنی پریزینٹیشن میں تاجر برادری کو بتایا کہ قومی اسمبلی میں جو بھی بل پیش ہوتا ہے اس کو جانچ پڑتال کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھیجا جاتا ہے لیکن قائمہ کمیٹیوں میں بلوں کے بارے میں پبلک سماعت کا کوئی نظام نہیں ہے جس وجہ سے قانون سازی کے عمل میں نجی شعبے سمیت عوام کی آواز ایوان اقتدار تک نہیں پہنچ پاتی۔ انہوں نے کہا کہ بعض ممالک میں باقاعدہ بجٹ دفاتر قائم ہوتے ہیں جو بجٹ تجاویز کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں اور بجٹ پیش ہونے کے بعد کافی دن اس کا تفصیلی جائزہ لے کر بجٹ پر بحث کا عمل شروع کیا جاتا ہے لیکن پاکستان میں بجٹ پیش ہونے کے صرف دو دن بعد اس پر عام بحث شروع ہو جاتی ہے جبکہ بجٹ کی جانچ پڑتال کیلئے مناسب وقت نہیں دیا جاتا۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ کو عموما متعلقہ قائمہ کمیٹی کے پاس بھی نہیں بھیجا جاتا تا کہ وہ اس کا تفصیلی جائزہ لے سکے اور اس پر بحث کر سکے۔انہوں نے کہا کہ مالیاتی بل سمیت تمام بلوں کیلئے متعلقہ قائمہ کمیٹیوں کو کم از کم 60دنوں کا وقت دیا جائے تا کہ وہ ان کا تفصیلی جائزہ لے سکیں اور جامع بحث و مباحثہ کے بعد اپنی سفارشات اسمبلی کو پیش کر سکیں۔