روس امریکا تنازع، بالا دستی کی جنگ

421

ایک طرف روس وامریکا میں ٹھن گئی ہے اور ایک دوسرے کے سفارتکار نکالے جا رہے ہیں،دوسری طرف بھارت بھی امریکا کے بل بوتے پر خود کو علاقے کی قوت فوقیہ( سپر پاور) سمجھ بیٹھا ہے اور پاکستان کو جنگ کی دھمکیاں دینے پر اُترا ہوا ہے ۔ روس کبھی سوویت یونین کے نام سے دنیا کی دو بڑی طاقتوں میں سے ایک تھااور روس و امریکا میں طویل سرد جنگ ہوتی رہی ۔افغانستان میں مجاہدین کے ہاتھوں شکست کھا کر سوویت یونین ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر اپنے خول میں سمٹ گیا اور ایک بار پھر روس کہلایا ۔ اس کی شکست میں امریکا کا بھی ہاتھ تھا جس نے براہ راست تصادم کے بجائے افغانستان میں مجاہدین کی جرأت و ہمیت کو اپنا سہارا بنایا ۔ روس کو خوب معلوم ہے کہ اس کی شکست کے پیچھے امریکا تھاچنانچہ وہ اس بات کو بھولا نہیں ہے اور روسی حکمران اور عوام ایک بار پھر اپنے ماضی کے احیاکی کوشش میں ہیں ۔ اس وقت روسیوں کوصدر پیوٹن کی صورت میں ایک بیدار مغز حکمران مل گیا ہے جس سے امریکا اور اس کے حواری یورپی ممالک خوف زدہ ہیں چنانچہ برطانیہ میں پیش آنے والے ایک عام سے واقعہ کو بنیاد بنا کر سفارتی محاذ پر روس کے خلاف اعلان جنگ کر دیا گیا ہے ۔ امریکا برطانیہ میں روسی جاسوس اور روس میں امریکی اور یورپی ممالک کے جاسوسوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا علم سب کو ہے ۔ چنانچہ برسوں سے ایسا ہو رہا ہے کہ جاسوس پکڑے جاتے رہے ہیں اور بارہا ان کا تبادلہ بھی ہوا ہے۔ یہ بھی کوئی راز نہیں کہ دنیا بھر میں جاسوسی کا جال پھیلانے میں برطانیہ سر فہرست تھا اب اس کی جگہ امریکا اور اس کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے نے لے لی ہے ۔ عالم عرب میں انتشار وا فتراق برپا کرنے کے لیے برطانیہ کے مشہور جاسوس لارنس آف عربیہ نے مسلمان بن کر کام کیا اور نتیجہ یہ ہوا کہ عربوں میں قومیت کا زہر پھیلانے میں کامیاب ہو گیا ۔ یہی کام امریکا کر رہا ہے جسے مسلمانوں ہی میں سے غدار دستیاب ہو جاتے ہیں بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ مسلم ممالک کے کئی حکمران بھی سی آئی اے کے تنخواہ دار تھے اور ہیں ۔ یہ کس کو نہیں معلوم کہ اسرائیل پورے عالم اسلام کا کھلا دشمن ہے اور اس کی پشت پر امریکا ہے ۔ اب اگر کوئی عرب ملک اسرائیل کے لیے اپنی فضائی حدود کھول دے یا اسرائیل کے حامی گروہوں سے میل ملاقات کرے تواس کا کیا مطلب لیا جائے؟ سعودی سفارتخانے نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ سعودی ولی عہد نے امریکا میں یہودی ربیوں اور یہودی اداروں کے رہنماؤں سے ملاقات کی ہے۔ عالم اسلام کے بیشتر حکمران محض امریکا کی خوشنودی کے لیے اسرائیل کو گلے لگانے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ ایک آمر جنرل پرویز مشرف نے بھی یہ فلسفہ پیش کیا تھا کہ مسلمانوں اور یہودیوں میں زیادہ فرق نہیں ہے۔ ہم سلام کہتے ہیں اور وہ شلوم۔ واہ کیا مناسبت تلاش کی گئی۔ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ یہودی اسحاقؑ کی اولاد ہیں اور مسلمان ان کے بھائی اسماعیلؑ کی۔ یوں دونوں عم زاد ہوئے۔ لیکن فلسطین میں کیا ہورہاہے، کیا یہ دو بھائیوں کی لڑائی ہے۔ جہاں تک روس اور امریکا و یورپ کے نئے تنازع کا تعلق ہے تو اس کا آغاز سابق روسی جاسوس سرگئی اسکرپل کی برطانیہ میں زہریلی گیس سے ہلاکت سے شروع ہوا۔ اس پر واشنگٹن نے روس کے 60 سفارتکاروں کو اپنے ملک سے نکال دیا۔ اس کے جواب میں روس نے بھی 60 امریکی سفارتکاروں کو ملک بدر کردیا۔ لیکن صرف امریکا ہی نہیں برطانیہ اور کچھ یورپی ممالک نے بھی روسی سفارتکاروں کو نکال دیا۔ جس پرروسی وزیر خارجہ نے انتباہ کیا ہے کہ ان ممالک کے ساتھ بھی ایسا ہی برتاؤ کیا جائے گا۔ چنانچہ 18 یورپی سفارتکار نکالے جارہے ہیں۔ سینیٹ پیٹرز برگ میں امریکی سفارتخانہ بند کرادیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ کا کہناہے کہ روس نے خود کو مزید تنہا کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ یہ صورتحال ایک اور سرد جنگ کی طرف جارہی ہے اور دنیا ایک بار پھردو حصوں میں تقسیم ہوسکتی ہے۔ لیکن امریکا کا یہ گمان صحیح نہیں ہے کہ روس نے خود کو مزید تنہا کرلیا ہے۔ اس سے پہلے روسی کمیونزم اور امریکی و یورپی کیپٹل ازم یا سرمایہ داری نظام کی جنگ تھی لیکن سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ کمیونزم یا اشتراکیت کا فلسفہ بھی دم توڑ گیا۔ سید مودودیؒ کی پیشگوئی کے مطابق کمیونزم ماسکو میں دم توڑے گا اور سرمایہ داری نظام واشنگٹن میں۔ پیشگوئی کا دوسرا حصہ بھی پورا ہوکر رہے گا لیکن اس کو کچھ سرمایہ دار مسلم ممالک نے سہارا دے رکھا ہے۔ بھارت پہلے ماسکو کا کاسہ لیس تھا اب امریکا کی گود میں ہے۔ پاکستان کو فیصلہ کرنا ہے کہ کس طرف کا رخ کرنا قومی مفاد میں ہوگا۔ امریکا کی طویل خدمت اور چاپلوسی کے جواب میں تو صرف دھمکیاں ہی ملی ہیں اور کہا گیا ہے کہ پاکستان ٹھیک ہوجائے ورنہ بہت برا حشر ہوگا۔ امریکا کی خوشامد کرکے حکمرانوں نے پاکستان کا جو حشر کردیا ہے اس سے برا اور کیا ہوگا۔ امریکا کی شہ پر بھارت پاکستان اور چین کو آنکھیں دکھارہا ہے جس پر ترجمان دفتر خارجہ نے انتباہ کیا ہے کہ بھارت کو طے شدہ وقت اور مقام پر سبق سکھائیں گے۔ فائر بندی معاہدے کی مسلسل خلاف ورزی کسی مہم جوئی کا باعث بن سکتی ہے جس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔