امتحانات میں نقل کا زور

650

کراچی سمیت پورے سندھ میں میٹرک کے امتحانات ہورہے ہیں اور اس سال بھی نقل کرنے اور اس کی روک تھام میں ناکامی کی روایت برقرار رہی۔ پاکستان کے تعلیمی نظام میں میٹرک ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتاہے جس کی بنیاد پر مستقبل میں حصول تعلیم کے راستوں کا تعین ہوتاہے ۔ اس کے نتائج طے کرتے ہیں کہ آگے کس مضمون کا انتخاب کرنا ہے۔ ایف ایس سی پری میڈیکل، پری انجینئرنگ یا کوئی اور راستہ ۔ طریقہ تعلیم، طریقہ امتحان اور نصاب پربرسوں سے بحث ہورہی ہے لیکن بے نتیجہ رہی ۔ بہر حال نقل کرکے پاس ہونے والے سند تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن قابلیت اور علم سے محروم رہتے ہیں۔ ساراسال نہ پڑھنے والے بچوں کو اطمینان ہوتاہے کہ نقل کرکے ، بوٹی مافیا کی مدد سے یا گائیڈ بک پڑھ کر پاس ہوجائیں گے۔ اور پھر اگر کسی با اثر خاندان سے تعلق ہے تو ڈاکٹر اور انجینئر بھی بن جائیں گے۔ نصاب تعلیم اور طریقہ تعلیم میں تبدیلی خیال و خواب کی باتیں ہیں مگر بچوں کو نقل سے روکنا تو ممکن ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ خود نگران بھی نقل کرانے میں تعاون کرتے ہیں۔ یہاں تک ہوتارہاہے کہ جواب کی کاپیاں امتحانی مرکزسے باہر چلی جاتی ہیں اور امتحان ختم ہونے کے بعد جمع کرلی جاتی ہیں۔ شاید یہ تسلیم کرلیاگیاہے کہ نقل روکنا ممکن نہیں۔ اگر ایسا ہے تو سب کو کھلی چھوٹ ملنی چاہیے ورنہ سارا سال محنت کرنے اور نقل کرنے والے برابر ہوجاتے ہیں۔ ماہرین تعلیم کو ترقی یافتہ ممالک کے طریقہ امتحانات کا مطالعہ بھی کرنا چاہیے اور کچھ نہیں تو دینی مدارس ہی سے سبق سیکھ لیاجائے۔ ملک بھرمیں لاکھوں کی تعداد میں مدارس کے طلبہ امتحانات دیتے ہیں لیکن کہیں سے نقل کرنے کی شکایت موصول نہیں ہوتی۔ یہ مدارس اور ان کے طلبہ اسی بھی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پھر ایسی کیا بات ہے کہ وہاں کرنا ممکن نہیں۔ مدارس کے اساتذہ سے رابطہ کرکے طریقہ تعلیم اور طریقہ امتحان کو بہتر بنایاجاسکتاہے لیکن اس سال تو طلبہ کے ساتھ یہ زیادتی بھی ہورہی ہے کہ بیشتر امتحانی مراکز میں نہ بجلی ہے نہ پانی کا بندو بست۔ جسارت کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں چھوٹے مراکز میں گنجائش سے زیادہ طلبہ کو ٹھونس دیاگیا چنانچہ بعض اسکولوں میں ایک ڈیسک پر دو،دو بچے بٹھادیے گئے تاکہ ایک دوسرے سے تبادلہ خیال میں دشواری نہ ہو۔ رپورٹر کے مطابق ایجنٹ مافیا اور اسکول مافیا کی خوشنودی کے لیے ثانوی تعلیمی بورڈ کے امتحانات سے قبل کئی مراکز کو راتوں رات تبدیل کردیاگیا۔ کئی جگہ بروقت ایڈمٹ کارڈز نہیں پہنچے۔ یہ شکایات ہر سال ہی سامنے آتی ہیں مگر ان کو مستقل حل کرنے کی کوشش کوئی نہیں کرتا۔ ایک کارنامہ یہ ہواہے کہ نیا تعلیمی سال شروع ہونے کے باجود درسی کتب اسکولوں کو فراہم نہیں کی جاسکیں۔ گورنر سندھ کہتے ہیں کہ اعلیٰ تعلیم کا فروغ وفاقی حکومت کا نصب العین ہے۔ ہوگا، لیکن پہلے ابتدائی اور ثانوی تعلیم پر تو پوری توجہ دی جائے۔ گورنرکہہ سکتے ہیں کہ یہ تو صوبائی معاملہ ہے، ہم تو اعلیٰ تعلیم کے ذمے دار ہیں۔ ایساہی ہوگا لیکن جب تک ابتدائی تعلیم مستحکم نہ ہو اعلیٰ تعلیم کا فروغ محض خواب ہے۔