راولپنڈی میں ن لیگ مشکلات کا شکار، چودھری نثارکے متبادل کی تلاش

264

اسلام آباد ( رپورٹ:میاں منیر احمد) ملک کے ان چند شہروں کے قومی اسمبلی کے حلقے اور امیدوار، جو ہمیشہ غیراعلانیہ میڈیا تشہیر کے ذریعے انتخابی میدان میں اترتے ہیں ان میں جڑواں شہروں راولپنڈی اور اسلام آباد سے شیخ رشید احمد اور چودھری نثار علی خان نمایاں نام ہیں لیکن ان دونوں کی سیاست کسی بڑے دھڑے کے بغیر ممکن نہیں رہی ان دونوں نے فعال انداز میں خبروں میں ’’ان‘‘ رہ کر سیاست کی ہے
اور اس عمل کو اپنی انتخابی حکمت عملی کا حصہ بنایا ہے شیخ رشید احمد طالب علم رہنما بھی رہے، بلدیاتی سیاست میں بھی حصہ لیا لیکن قومی سطح کی سیاست میں ابتداء غیر جماعتی انتخابات سے ہوئی ملک جعفر‘ عزیز بھٹی‘ خورشید حسن میر اور کرنل حبیب احمد 1970ء کے الیکشن میں پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر راولپنڈی سے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے اس کے بعد1977ء کے انتخابات ہوئے تو پیپلزپارٹی پھر کامیاب ہوئی اورعزیز بھٹی‘ خورشید حسن میر اور کرنل حبیب احمد کے علاوہ نذر حسین کیانی اور علی اصغر شاہ کامیاب ہوئے اور اسلام آباد سے راجہ ظہور علی کامیاب ہوئے،1977 کے بعد راولپنڈی اور اسلام آباد سے پیپلزپارٹی بتدریج ختم ہوتی چلی گئی اور اس کی جگہ مسلم لیگ نے لی شیخ رشید احمد اور چودھری نثار علی خان کا سیاسی سفر 1985ء سے شروع ہوتا ہے2002 ء کے انتخابات میں اسلام آباد سے متحدہ مجلس عمل کے امیدوار میاں اسلم نے پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ کے امیدواروں کو بھاری مارجن سے شکست دی تھی۔ 2008ء میں جماعت اسلامی نے بائی کاٹ کیا تو میاں اسلم امیدوار نہیں بنے اس حلقے سے ان کی جگہ مسلم لیگ کے انجم عقیل کامیاب ہوئے راولپنڈی میں شیخ رشید احمد پہلی بار1985ء میں غیرجماعتی انتخابات کے دوران میدان میں اترے تھے اور اس وقت ایم آر ڈی نے بائی کاٹ کیا تھا، پیپلزپارٹی کے کارکن کے پاس کوئی راستہ نہیں تھا علی اصغر شاہ پیپلزپارٹی کے کارکن ہونے کی وجہ سے الیکشن میں حصہ نہیں لے سکے تھے ان کی جگہ شیخ رشید احمد نے اپنے کاغذات نامزدگی داخل کرائے اور ساتھ ہی پیپلزپارٹی کے کارکنوں کی ایک ٹیم بھی اپنے ساتھ بہا لے گئے یہ کارکن آج تک ان کے ساتھ ہیں بڑے بڑے دعویٰ کرکے میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہمیشہ سے شیخ رشید احمد کی انتخابی حکمت عملی کا حصہ رہا ہے ان کا اپنا ووٹ بینک بہت ہی کم ہے لیکن وہ سیاسی حالات اور سماجی رکھ رکھاؤ کے ذریعے خوب فائدہ اٹھانے والے سیاسی کارکن ہیں سب سے پہلے وہ غیر جماعتی انتخاب میں پیپلزپارٹی کی خاموش حمایت سے کامیاب ہوئے تھے اس کے بعدمسلم لیگ(ن) اور اس بار تحریک انصاف کی مدد سے اسمبلی میں پہنچے ہیں لیکن انہیں مسلم لیگ(ن) کے سیاسی زور کی وجہ سے 3بار قومی اسمبلی کے انتخاب میں شکست ہوئی سب سے پہلے انہیں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر جاوید ہاشمی نے شکست دی ان کے بعد شیخ رشید احمد کو راولپنڈی کے کسی سیاسی کارکن نے اگر کوئی ٹف ٹائم دیا تو وہ حنیف عباسی ہیں جو پہلے ایم ایم اے کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب میں شیخ رشید احمدکے بھتیجے راشد شفیق کو شکست دے کر قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے راولپنڈی کے دوسرے بڑے نمایاں امیدوار چودھری نثار علی خان ہیں، جو1985ء سے لے کر2013ء تک قومی اسمبلی کے ہر الیکشن میں کامیاب ہوئے ہیں اور ان کی انتخابی حکمت عملی بھی یہی رہی کہ ہمیشہ متنازع رہے اسی بنیاد پرہر بار نئے دھڑوں کے ساتھ میدان میں اترے اور انتخابات میں کامیاب ہوتے رہے لیکن اس بار پہلا موقع ہوگا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹ کے لیے امتحان سے گزر رہے ہیں ان کی خواہش ہوگی کہ وہ مسلم لیگ(ن) میں رہیں اور آزاد امیدوار بن کر انتخاب میں حصہ لیں ایسی صورت میں تحریک انصاف ان کی حمایت کرے گی اور ان کے مقابلے میں اپنا کوئی امیدوار کھڑا نہیں کرے گی لیکن چودھری نثار علی خان کے روایتی سیاسی حریف غلام سرور خان کا کھلا اور بڑا واضح مؤقف ہے کہ حالات جیسے بھی ہوں وہ چودھری نثار علی خان کا ہر قیمت پر مقابلہ کریں گے راولپنڈی میں راجا بشارت بھی ایک بڑے سیاسی گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مسلم لیگ(ن) میں چودھری نثار علی خان کے مخالف دھڑے نے ان سے رابطہ کیا ہے وہ چودھری نثار علی خان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن) کے ٹکٹ پر الیکشن لڑیں راجا بشارت اس وقت قاف لیگ میں ہیں اور انہوں نے دوستوں سے مشورہ کرکے جواب دینے کی یقین دہانی کرائی ہے اگر مسلم لیگ(ن) چودھری نثار علی خان کو ٹکٹ نہیں دیتی تو اس حلقے میں ہونے والا انتخابی معرکہ میڈیا کی بہت بڑی توجہ حاصل کرلے گا اسلام آباد میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں سے قبل قومی اسمبلی کے 2 حلقے تھے اب ایک حلقے کا اضافہ ہوچکا ہے اور تیسرا حلقہ بھی بن گیا ہے ان تین حلقوں میں سے 2 میں پیپلزپارٹی کی ٹکٹ پر مصطفی نواز کھوکھر، افضل کھوکھر امیدوار ہوں گے مسلم لیگ(ن) اور متحدہ مجلس عمل کے امیدوار ان کے مدمقابل ہوں گے اسلام آباد میں پیپلزپارٹی، مسلم لیگ(ن) کے امیدواروں ظفر علی شاہ اور بابر اعوان کو بھاری شکست دے کر جماعت اسلامی کے نائب امیر میاں اسلم ایم این اے رہ چکے ہیں، مسلم لیگ (ن) کی جانب سے وزیر کیڈ طارق فضل چودھری کامیاب ہوتے تھے تحریک انصاف کی جانب سے اسلام آباد کے شہری حلقے سے اسد عمر اس وقت ایم این اے ہیں غالب امکان ہے کہ اسد عمر اس بار کراچی سے الیکشن میں حصہ لیں گے خود عمران خان اسلام آباد سے امیدوار ہو سکتے ہیں۔