شوقیہ مداخلت کون کرتا ہے

368

ابھی تک عدالت اور حکومت کے درمیان معاملات ٹھیک نہیں ہوئے بلکہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مزید بگاڑ پیدا ہونے جارہا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ فوراً مداخلت کرتا ہوں، کیا ٹیک اوور کرنا چاہتا ہوں، میرے پوسٹرز ضرور ہٹائے جائیں، جانتا ہوں ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی میرا نام نہیں لے گا۔ جو کچھ کررہا ہوں شہریوں کی سہولت کے لیے کررہا ہوں۔ سندھ کے مسائل حل کرنے کے لیے روز بیٹھنا پڑا تو بیٹھوں گا۔ دوسری طرف وزیراعظم نے کھلی دھمکی دے ڈالی کہ حکومت ہٹانے کا بدلہ عوام لیں گے۔ عجیب روایت پڑ گئی ہے جو ملکی مسائل حل کرے اسے عدالتوں میں گھسیٹا جاتا ہے عہدوں سے ہٹایا جاتا ہے، عدالت کے بہت سارے فیصلوں کو تاریخ بھی قبول نہیں کرتی۔ قوم یاد رکھے ہمارا مقابلہ دو نمبر سیاست اور سیاستدانوں سے ہے۔ وزیراعظم تو دو دھاری بیان دے گئے کہ ضمیر فروش اور جیبیں بھرنے والے ایوانوں میں آئے تو ملک ترقی نہیں کرے گا۔ چیئرمین سینیٹ اور اور سینیٹرز حلفیہ بیان دیں کہ کسی کو نہیں خریدا۔ اور تو اور انہوں نے دھمکی دی کہ سینیٹ انتخاب کے معاملے میں دخل دیتا رہوں گا۔ گویا جنگ جاری رہے گی۔ یہ جنگ افراد کی ضد کی وجہ سے ہے یا کہیں سے دونوں طرف ہوا بھری جارہی ہے۔ چیف جسٹس سے کون کہتا ہے کہ مداخلت کریں وہ کیوں مجبور ہیں۔ وہ بتادیں کہ انہیں کون مجبور کرتا ہے کہ مداخلت کریں۔ ویسے یہ بات تو چیف جسٹس بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ پاکستان میں اب تک جتنے بھی طاقتور لوگوں نے مداخلت کی ہے یہ کہا ہے کہ مجبوراً مداخلت کرنا پڑی۔ جنرل ایوب ہوں، جنرل ضیا ہوں یا جنرل پرویز کوئی بھی یہ نہیں کہتا تھا کہ مجھے تو بچپن سے مداخلت کا شوق تھا۔ سب نے ملکی حالات کی تباہی، سیاست دانوں کی نا اہلی اور گورننس کے حوالے سے شکوہ کیا اور اپنی حب الوطنی کی سند خود کو دے کر سب کو چلتا کیا۔ جناب بھی اسی مجبوری کے اسیر ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ٹیک اوور کے چکر میں نہیں ہوں۔ ہمیں یہ بات تسلیم کرلینی چاہیے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ پیمانے بھی ہونے چاہئیں جن کے بارے میں کہا جاسکے کہ ہاں عدالتی نظام اتنا اچھا ہوگیا ہے کہ ایک عام آدمی عدالت جاتا ہے اور انصاف لے کر نکلتا ہے۔ یہ کام ماتحت عدالتوں سٹی سیشن اور ضلعی و تحصیل کی سطح تک ہوگیا ہے یا نہیں۔ عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے معاملات تو شہروں اور میڈیا کی وجہ سے بہت سے لوگوں کی نظروں میں آجاتے ہیں۔ چھوٹے چھوٹے شہروں میں تو عدالتیں نہیں دکانیں ہیں وکیل دکانداروں کے کارندے ہیں۔ ایس ایچ او بادشاہ ہیں۔ اول تو غریب آدمی کسی وڈیرے، چودھری، جاگیردار وغیرہ کے خلاف شکایت نہیں لے جاسکتا تو بات عدالت تک پہنچے گی کیسے۔ دوسرے یہ کہ اگر کسی طرح پولیس میں رپورٹ درج بھی کرادی تو چند ہی روز میں مقدمہ الٹا ہوجاتا ہے اور یہ کام ایک دو نہیں چند سو نہیں ملک بھر میں لاکھوں غریبوں کے ساتھ ہورہاہے۔ یہ جو پانی کی صفائی ہے، کچرا اٹھائی ہے، صحت کی سہولتیں ہیں ان سب کا تعلق صاف ستھرے اور ایماندار لوگوں سے ہے۔ اگر ارکان اسمبلی اور پارلیمنٹ میں چور ہوں گے ، ان کی ساری جد وجہد پیسہ بنانے کے لیے ہوگی وہ سیٹیں خریدیں اور بیچیں گے تو اس کا واضح مطلب ہے کہ وہ یہ پیسے بھی پورے کریں گے۔ چیف جسٹس روز بیٹھیں یا ہر ہفتے آکر سی ویو کا دورہ کریں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ یہ بات درست ہے کہ ملک میں سیاسی پارٹیاں اور حکمران عوام کی خدمت کے معاملے میں مخلص نہیں وہ صرف اپنے اقتدار اور اپنے مفادات سے دلچسپی رکھتے ہیں۔ لیکن اگر عدالت عظمیٰ فوج یا کوئی خفیہ قوت مداخلت کرتی رہے گی، مجبوراً یا شوقیہ، کسی بھی قسم کی مداخلت، تو پھر یہ نا اہل لوگ مظلوم بنیں گے، اپنے اپنے حلقوں کے عوام کے پاس جائیں گے، مظلومی کا رونا روئیں گے اور ایک بار پھر پارلیمنٹ میں جا بیٹھیں گے۔ پھر ان ہی کی حکومت ہوگی اور چیف جسٹس صاحب ریٹائر ہوچکے ہوں گے۔ واقعی کوئی نام بھی نہیں لے گا۔ ہاں ایک راستہ ہے کہ ریٹائر بھی ہوجائیں اپنے رب کے پاس بھی چلے جائیں لوگ نہ صرف نام یاد رکھیں گے بلکہ نسلیں دعائیں دیتی رہیں گی۔ چیف صاحب یہ جو فوج اور عدلیہ کو مجبوراً مداخلت کرنا پڑتی ہے وہ ان نالائق لوگوں کی وجہ سے ہے اور اگر آپ آنے والے چند ماہ میں سارا زور انتخابات شفاف کرانے پر لگادیں، چوروں، دو نمبر لوگوں، جھوٹے سیاست دانوں سب کا صفایا کردیں۔ قوم کو رہنمائی دیں کہ وہ اپنے اصل نمائندوں کو منتخب کریں۔ متناسب نمائندگی کے نظام کو بروئے کار لائیں۔ مال اور افراد کی بلیک میلنگ ختم کرادیں ایک مرتبہ پارلیمان میں عوام کے حقیقی نمائندے آجائیں تو پھر دو نمبر لوگوں کو مواقع ہی نہ ملیں اور کسی کو مجبوراً مداخلت بھی نہ کرنا پڑے۔ چیف جسٹس نے اسپتالوں اور گندے پانی کا ذکر کیا، ان سب کے ذمے دار بھی یہی سیاست دان ہیں۔ سندھ میں پیپلزپارٹی مسلسل حکومت میں ہیں لاڑکانہ ان کا مرکز ہے لیکن اس کے اسپتال کی ویڈیو نے چیف جسٹس کو شرمسار کردیا۔ان پی پی والوں کو کچھ نہیں ہوا۔ چیف جسٹس کی مداخلت سے زیادہ سے زیادہ یہ ہوگا کہ اسپتال کا ایم ایس اور مزید کچھ ہوا تو سیکرٹری صحت گھر چلا جائے گا۔ وزیر ، رکن اسمبلی اور پارلیمنٹ کے دیگر اراکین کا کچھ نہیں بگڑے گا وہ یہی سارے غلط کام دوسرے افسران سے کروالیں گے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام کو حقیقی نمائندے چننے کا موقع دیا جائے۔ بس چیف جسٹس اتنی مداخلت کرلیں۔ رہتی دنیا تک لوگ اچھے نام سے یاد کریں گے اور ہاں وزیراعظم کو اب بس کردینا چاہیے۔ وہ یہ دھمکی کیوں دے رہے ہیں کہ حکومت ہٹانے کا بدلہ عوام لیں گے۔ وہ تو 45 دنوں کے لیے آئے تھے اس سے کہیں زیادہ وقت گزارلیا اب اگر ایک دو ماہ قبل ہٹا بھی دیے گئے تو بدلہ لینے کے بجائے عوام کے پاس جاکر ووٹ مانگ لیں، یہ مداخلتوں ہی کا نتیجہ ہے کہ نواز شریف مظلوم بنے ہوئے ہیں۔ اگر یہ حکومت بھی ہٹائی گئی تو یہ بھی مظلوم بن جائیں گے۔ ویسے وزیراعظم قوم کو بتادیں کہ کس حکومت نے کون سے ملکی مسائل حل کیے ہیں؟۔اور دو نمبر سیاست دان کون ہیں اور ان کا نمبر کیا ہے۔