ٹیک اوور…… اوور ٹیک بھی نہ کریں

377

چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بالکل بجا فرمایا ہے کہ میں انتظامی معاملات میں مجبوراً مداخلت کرتا ہوں۔ ٹیک اوور کے چکر میں نہیں۔ ان کی بات سمجھ میں بھی آتی ہے لیکن سمجھ سے بالا بھی ہے۔ کیا عدلیہ کے تمام امور ایسے ہیں کہ کسی اور طاقت کو مداخلت کی مجبوری نہیں۔ ایسا تو نہیں ہے دنیا بھر کے عدالتی نظام اور عدالتوں کے بڑے بڑے کیسز کا جائزہ لیں تو کہیں کہیں ایسا ہوا ہے کہ حکومت کو عدالتی حکم پر چلتا کردیا گیا ہو۔ یا کسی صدر اور وزیراعظم کو اس کے وزرا کو بار بار عدالتوں میں بلایا جارہا ہو۔ لیکن صرف پاکستان میں ایسا ہوتا ہے۔ ایسا ہوتا کیوں ہے۔ کیا عدالتوں کو مداخلت کا شوق ہے۔ کیا فوج مجبور ہے بار بار مداخلت کرتی ہے۔ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ ایک چکر ہے۔ جب فوج مداخلت کرتی ہے تو اسے معاملات اور نظام چلانے کے لیے کچھ لوگوں کی ضرورت پڑتی ہے اور اس مقصد کے لیے وہ اس سیاسی نظام میں سے کچھ مطلب پرستوں کو اپنا نظام چلانے کے لیے آگے لاتی ہے۔ چوں کہ فوج سیاست کے امور سے واقف نہیں اس لیے طاقت اور وسائل کی فراوانی کے باوجود اسے پتا ہی نہیں چلتا کہ کب اس کے بنائے ہوئے بت قد سے اونچے ہوگئے اور ہاتھ کی صفائی دکھانے لگے۔ اب صورت یہ ہے کہ فوجی گملے کی پنیری سے اتنے زیادہ پودے بلکہ جھاڑ جھنکار نکل آئے ہیں کہ خدا کی پناہ۔ ہر طرف میں ہوں میں ہوں کا نعرہ ہے۔ ایسے حالات میں جو حکومت میں آتا ہے (اول تو چند ہی لوگ لوٹ پھر کر آتے ہیں)۔ اس کی تعمیر ہی میں خرابی ہوتی ہے اس لیے اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی وقت دعوت (پارٹی) ختم ہوجائے گی۔ لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر لوٹو۔ مال سمیٹو۔ دونوں ہاتھوں سے پیروں سے، زبان سے، آنکھوں کے اشاروں سے ہر طرح مال بناؤ۔ اور ایسا ہی ہورہا ہے۔ اگر اس بدانتظامی کو روکنے کے لیے چیف جسٹس مداخلت کرتے ہیں تو ہوتا کچھ نہیں یہ دیمک یا کینسر کو کسی ایک سرے سے چھیڑ دینے کے مترادف ہے۔ پورے نظام کو کھرچ کر پھینکنا ہوگا، یہ ایک آدمی کی مجبوراً مداخلت سے نہیں ہوگا۔ ہاں ایک آدمی فرق پیدا کرسکتا ہے۔
جہاں تک چیف جسٹس کے ٹیک اوور کا تعلق ہے تو وہ خود تو یہ کام نہیں کرسکتے۔ ٹیک اوور تو وہ خود نہیں کرسکتے، کوئی کہے گا یا کوئی کروائے گا تو ٹیک اوور ہوگا۔ لیکن چیف صاحب بار بار اوور ٹیک ضرور کررہے ہیں۔ اس اوور ٹیک کا نقصان یہ ہے کہ عوام بڑے نہیں ہور ہے۔ یہ اوور ٹیک جنرل ایوب، جنرل ضیا، جنرل پرویز سب نے کیا۔ لیکن انہوں نے اوور ٹیک کے بعد ٹیک اوور بھی کرلیا۔ چیف جسٹس کے اوور ٹیک سے حادثات کا خدشہ ضرور بڑھ گیا ہے وہ اوور ٹیک کریں گے اور کوئی کانسٹیبل ٹیک اوور کے لیے تیار بیٹھا ہوگا۔ اگر ٹیک اوور کے ذریعے عوام کو احتساب کے حق اور فرض سے محروم کیا جاتا رہا تو پاکستان میں اصلاح بھی نہیں ہوسکے گی۔ یہ کام عوام کا ہے کہ پانچ برس کا حساب وہ خود لیں۔ عوام کو خود دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کو کس کے حوالے کررہے ہیں، کب تک یہ دوسروں پر انحصار کریں گے کہ کوئی آئے اور حکومت کو چلتا کرے۔ ایسے اوور ٹیک اور ٹیک اوور کے نتیجے میں قوم کو بھی عادت ہوگئی ہے!!! کہ اب نیب سے کوئی حکم آیا!! اب عدالت کسی کو نااہل قرار دے گی، یا پھر قدم بڑھاؤ راحیل شریف جیسے نعرے بھی آجاتے ہیں۔ ساری خرابیوں کے باوجود عوام کو اپنے نمائندوں کا احتساب سیکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس ٹیک اوور تو کر نہیں سکتے بس اوور ٹیک کرکے انتخابی نظام ٹھیک کردیں ووٹر لسٹوں میں دھاندلی، حلقہ بندیوں میں دھاندلی، پولنگ کا عملہ سیاسی، نتائج کی تیاری سیاسی ہاتھوں میں، تو پھر نتائج بھی ایسے ہی آئیں گے۔ ایک دفعہ یہ سب ٹھیک ہوجائے تو کسی کو مداخلت نہیں کرنی پڑے گی۔ اور یہ مداخلت فائدہ بھی ان ہی کو پہنچاتی ہے جن کے خلاف مداخلت کی جاتی ہے۔ بھٹو کے خلاف جنرل ضیا نے مداخلت کی۔ انتخابی دھاندلی کے الزام میں اور نظام مصطفی لانے کے وعدے پر۔ انتخابی دھاندلی تو ختم نہیں ہوئی، نظام مصطفی بھی نافذ نہیں ہوا۔ بھٹو خاندان اقتدار میں آتا رہا۔ بے نظیر دو مرتبہ ان کی پارٹی کے وزیراعظم بے نظیر کے بعد اور ان کے شوہر صدر بنے۔ سندھ میں اب تک پی پی پی کی حکومت ہے، تو مداخلت کا فائدہ یہ ہوا کہ سندھ پیپلز پارٹی کا گڑھ اور گھر بن گیا۔ پنجاب میں میاں نواز شریف اس وقت سے مظلوم اور مقبول ہیں جب سے ان کے خلاف صدر غلام اسحق اور فوج نے مداخلت کی۔ پھر جنرل پرویز نے مداخلت کی اور تازہ مداخلت کا نتیجہ یہ ہوا کہ نواز شریف ایک باری ہور۔ کا نعرہ چل رہا ہے۔ یعنی مداخلت کا فائدہ ہمیشہ اس کو ہوتا ہے جس کے خلاف مداخلت کی جاتی ہے۔ تو پھر یہ اوور ٹیک اور شوقیہ یا مجبوری والی مداخلت نہ کی جائے تو اچھا ہے۔ عوام کو بڑا ہونے دیں۔ جب یہ بڑے ہوجائیں گے تو کسی کو مداخلت کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ورنہ بھگتیں گی ان کی نسلیں۔