باجوہ ڈاکٹرائن، عزیز ہم وطنو سلامت رہو؟

392

آنے والے کل کیا ہوگا؟ شاید ہی کوئی اس بارے میں حتمی رائے دے سکے مگر آثار وقرائن بتاتے ہیں فوج ملکی سیاست کا براہ راست کنٹرول سنبھالنے کی خواہشات اب ترک کرنے پر ذہنی طور پر تیار ہو چکی ہے۔ سیاسی نظام کی خرابی کو سیاست ہی سے دور کرنے کی سوچ اب غالب آتی جا رہی ہے۔ تاریخ کا سبق یہ ہے کہ فوج کی براہ راست حکمرانی پاکستان کے مسائل کا پائیدار حل اور عارضوں کا دائمی علاج کبھی نہیں رہی۔ ایک سخت گیر نظام کی تہہ میں تعصبات اور خرابیاں پلنے کا جو عمل شروع ہوتا ہے وہ فوجی نظام کا آہنی فرش ہٹنے کے بعد ہی اُبل پڑتے ہیں۔ جس کے بعد ملک کو دوبارہ ان سیاسی نیم حکیموں کے حوالے کرنا پڑتا ہے جن کا تجربہ اور بصیرت روز روز کے سیاسی حادثات نے اوجِ کمال کو پہنچنے ہی نہیں دیا ہوتا۔ وہ وقت کم اور مقابلہ سخت کا اصول اپنا کر یا تو ساری توانائی سیاسی طاقت یا پھر دولت کو سمیٹنے میں کھپا دیتے ہیں۔ کچھ ہوجانے کا خوف، سیاسی قالین پیروں تلے سے کھسک جانے کا دھڑکا انہیں اپنی جماعتوں میں جمہوریت قائم کرنے دیتا ہے اور نہ ہی وہ اپنی جماعتوں کے اجتماعی ضمیر کی صدا پر کان دھرتے ہیں۔ یوں داعیان جمہوریت کی شیروانیوں کے اندر ایک وردی موجود رہتی ہے۔ مسلم لیگ ن میں اس وقت بظاہر تنہا ہوتے ہوئے چودھری نثار اس کی زندہ مثال ہیں۔ پاکستان کی تاریخ ایسی بے شمار مثالوں اور کرداروں سے بھری پڑی ہے جو کچھ ہوجانے کے نفسیاتی عارضے سے جنم لینے والی جماعتی آمریت کے طوفان کی لہروں کا شکار ہوکر تاریخ کی گمنام وادیوں میں گم ہو کر رہ گئے۔ جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کا سورج نصف النہار پر تھا تو بہت سے دیوانے یہ کہتے تھے کہ جنرل مشرف کی فوجی حکومت نے مارشل لا کا رومانس ختم کردیا۔ اس سے بہت پہلے مولانا کوثر نیازی کہتے تھے کہ ذوالفقار علی بھٹو نے سوشل ازم اور جنرل ضیاء الحق نے اسلام کا رومانس ختم کر دیا۔ ظاہر ہے کہ جب کسی بھی نظام کو اپنانے کے پیچھے سیاست اور وقتی مفاد اور مخالفین کو دیوار سے لگانے کی سوچ ہوگی تو سوائے اس کے کچھ اور نہ ہوگا کہ اس نظام اور نظریے کا رومانس ختم ہو گا۔ عوام کے خواب ٹوٹ جائیں گے۔ آمر اور ’’جمہوری جی‘‘ دونوں اس ملک کے لوگوں سے ان کے خواب چھیننے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جاتے رہے۔ جنرل مشرف نے صرف فوجی حکمرانی ہی نہیں بلکہ وردی کا رومانس بھی ختم کر دیا تھا۔ فوجی حکومت کے سائے میں ملک میں دہشت گردی کا جو گند پھیلتا رہا اسے فوجی جوانوں نے ہی اپنی جانوں پر کھیل کر صاف کیا۔ یہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہی معلوم ہوگا کہ پاکستان کو بلیک واٹر جیسے گروہوں سے پاک کرنے میں انہیں کتنی جاں گسل جدوجہد سے گزرنا پڑا تھا۔ لال مسجد آپریشن کے دنوں کو کون بھول سکتا ہے جب لوگوں نے پرائیویٹ گاڑیوں سے آرمی کے اسٹکر کھرچ کر اُتار دیے تھے کیوں کہ کوئی بھی عوام کی غضبناک نگاہوں کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھا۔ تب لوگ لال مسجد والوں کی غلطیوں اور بے تدبیریوں اور ریاست کے اندر ریاست بنانے کی حکمت عملی کو بھول کر صرف یہ یاد رکھے ہوئے تھے کہ اس حسرت بھرے انداز میں صرف یہ کہہ رہی تھی کاش جنرل مشرف حکمت اور تدبر سے کام لے کر ایک سانحے کوٹال دیتی۔ المیہ یہ ہے کہ ہر مارشل لا کے بعد ہم قومی طور کسی نہ کسی سانحے کا شکار ہوئے۔ آخری فوجی حکومت کے دور میں ملک میں جو کانٹے بوئے گئے بعد میں فوج کو ہی وہ فصل بہت جان جوکھم سے کاٹ کر سمیٹنا پڑی۔ ایسے میں آئی ایس پی آر کے سربراہ میجر جنرل آصف غفور نے یہ وضاحت کرنا ضروری سمجھا کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا اٹھارہویں ترمیم سے کوئی تعلق نہیں یہ صرف سیکورٹی سے متعلق ہے۔ اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ نائن الیون یا پہلی افغان جنگ سے پہلے کا پاکستان چاہتے ہیں۔ آئی ایس پی آر کے سربراہ کی یہ وضاحت اس وقت سامنے آئی جب افواج پاکستان کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی اخبار نویسوں کے ساتھ ایک آف دی ریکارڈ گفتگو کے حوالے سے یہ تاثر ملا تھا کہ جنرل باجوہ اٹھارہویں ترمیم سے مطمئن نہیں۔ اب اس وضاحت نے یہ تاثر ختم کیا ہے کہ جنرل باجوہ ملکی سیاست کے اندرونی نقش تراشنے کے حوالے سے ذہن میں کوئی خاکہ رکھتے ہیں۔ میجر جنرل آصف غفور نے یہ وضاحت بھی کی کہ ملکی ترقی کے لیے سب اداروں کو اپنے اپنے دائرے میں کام کرنا ضروری ہے۔ جنرل آصف غفور کی اس دوٹوک وضاحت کے بعد ملک کا سیاسی نظام شکوک وافواہوں کے سایوں سے ہمیشہ کے لیے آزاد ہوجائے گا سردست ایسا ممکن نہیں کیوں کہ افواہ ساز فیکٹریوں کا کاروبار اور ٹی وی کی ریٹنگ کا معاملہ بھی اسی سنسنی خیزی سے جڑ کر رہ گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آئے روز ملک میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لیے کوئی نیا شوشا چھوڑ دیا جاتا ہے۔
آرمی چیف کی انگڑائی اور چھڑی لہرانے کے انداز پر بھی ایک بھرپور تبصرہ کرکے ملکی نظام کے حوالے سے شکوک وشبہات پیدا کیے جاتے ہیں۔ فوج بار بار یہ وضاحت کررہی ہے کہ اب اس کا عزیز ہم وطنوں کو السلام علیکم کہنے کا کوئی ارادہ نہیں کیوں کہ وہ عزیز ہم وطنوں کو سلامتی کی دعا دے کر فاٹا کے سنگلاخ پہاڑوں اور کنٹرول لائن کی برف پوش گھاٹیوں پر جا کھڑی ہوئی ہے جہاں اسے ملکی تاریخ کی سب سے خطرناک جنگ اور اپنی تاریخ کے انوکھے دشمن کا سامنا ہے۔ وہ ملکی سلامتی کے لیے سرحدوں پر اپنی توجہ مرکوز کیے ہوئے ہے اور اس راہ میں فوج کے جوان اپنی جانیں بھی قربان کررہے ہیں۔ اس کے باجود افواہ سازوں کا کاروبار بند نہیں ہوتا۔ ملک کا ایک اہم آئینی ادارہ عدلیہ بھی بار بار عدالتی مارشل لا اور سیاسی نظام پر حاوی ہونے کے عزائم اور ارادوں سے اعلان برات کررہا ہے مگر اس کے باجود شکوک کے سائے منڈلاتے ہی چلے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں فعال اداروں کا ماحول عنقا ہے۔ اب کوئی ادارہ اگر تھوڑی بہت فعالیت کا مظاہرہ کرکے تو جمہوریت کے آبگینے کو ٹھیس لگ جاتی ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران فوج کا کردار بڑھ جانا فطری معاملہ تھا اگر یہ کردار بڑھایا نہ گیا ہوتا تو آج پاکستان شام کی طرح امن کو ترس رہا ہوتا۔ تیز رفتار فیصلوں کے لیے کسی ایک ادارے کی طرف اختیارات کے پلڑے کا جھک جانا انہونی بات نہیں ہوتا۔ امن کے قیام کے ساتھ ہر چیز دوبارہ اپنے توازن پر آجائے گی اور اس کا آغاز بھی ہورہا ہے۔ باجوہ ڈاکٹرائن کا سیکورٹی تک محدود رہنا ایک اچھی روایت ہے جب کہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی امن سے مشروط ہے۔ ایک پرامن اور روشن پاکستان کے حوالے سے فوج کے سربراہ کے خیالات اور تصورات ہی ان کا ڈاکٹرائن ہونا چاہیے۔