۔20سال بعد

348

اپنے والدین اور بھائی کے قتل میں گرفتار اسما نواب اور اس کے دو ساتھی 20برس جیل میں رہنے کے بعد گزشتہ منگل کو عدالت عظمیٰ کے حکم پر بری کر دیے گئے۔ استغاثہ کے مطابق اسما نواب نے پسند کی شادی کرنے کے لیے اپنے دوست اور اس کے ساتھی کی مدد سے والدین اور بھائی کو رسیوں سے باندھ کر قتل کر دیا۔ پولیس نے ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالت میں پیش کیا جس نے تینوں کو سزائے موت سناد ی۔ معاملہ عدالت عالیہ میں آیا تو اس نے بھی سزائے موت کی توثیق کر دی لیکن عدالت عظمیٰ نے ثبوت ناکامی قرار دے کر تینوں کو بری کر دیا۔ ایک بار پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر تینوں بے گناہ تھے تو ان کے 20 سال کا حساب کون دے گا اور اگر وہ گناہ گار تھے تو ان کی بریت کے نتیجے میں مقتولوں کو انصاف کون دلائے گا۔ یہ تو حقیقت ہے کہ تین افراد قتل کیے گئے اور کسی نے تو کیے ہوں گے۔ اگر اسما نواب اور اس کے ساتھیوں نے قتل نہیں کیا تو پھر کس نے کیا؟ اصل قاتل کہاں ہیں۔ اگر یہی فیصلہ آنا تھا تو انسداد دہشت گردی کی عدالت اور پھر عدالت عالیہ نے کیوں نہیں کیا اور جو ثبوت اور شواہد20سال بعد عدالت عظمیٰ نے ناکافی قرارد دیے وہ ماتحت عدالتوں کو کیوں نظر نہیں آئے۔ اگر ان کا فیصلہ غلط تھا تو کیا یہ فیصلہ کرنے والے ججوں کا احتساب کیا گیا۔ 20 سال تو بہت ہوتے ہیں قتل کے مجرم کی عمر قید بھی 14سال کی ہوتی ہے جس میں سے چھٹیاں منہا کرکے یا اچھے چال چلن کی بنیاد پر مزید کمی ہو جاتی ہے۔ جرم سرزد ہوا یا نہیں لیکن تینوں نے بھرپور سزا کاٹ لی اور جوانی کے 20سال سلاخوں کے پیچھے گزر گئے۔عدالت عظمیٰ کے جج جناب جسٹس کھوسہ نے فیصلہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ پولیس ملزم تک تو پہنچ جاتی ہے مگر جرم ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ ثبوت و شواہد نہ ہونے پر چھوڑ دیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ عدالتیں چھوڑ دیتی ہیں۔ یعنی ایک طرف تو پولیس کا طریقہ کار ناقص ہے دوسری طرف عدالتیں فیصلہ کرنے میں تاخیر کرتی ہیں گویا عدالتی نظام بھی اصلاح طلب ہے۔ مگر بگڑا نظام ٹھیک کب ہوگا؟