جنسی تشدد کے واقعات میں اضافہ

390

ایک غیر سرکاری تنظیم کی رپورٹ کے مطابق سال 2017ء میں پاکستان میں بچوں پر جنسی تشدد کے 3ہزار 445 واقعات ہوئے۔ یہ وہ تعداد ہے جو رپورٹ ہوتی ہے لیکن اتنے ہی ایسے واقعات ہوں گے جو رپورٹ نہیں کیے گئے یا پولیس نے ان کی ایف آئی آر درج کرنے کی زحمت نہیں کی۔ اس کے باوجود مذکورہ تعداد بھی مسلمانوں کے ملک میں انتہائی شرم ناک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ بچوں، بچیوں کے جنسی استحصال میں اضافہ کیوں ہوتا جارہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ تو سخت سزائیں نہ دینا ہے جس سے بدکاروں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں۔ اگر شریعت پر عمل ہو تو ایسے بدکاروں کو سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔ حضرت لوط ؑ کی قوم کو اسی جرم میں اللہ نے پوری بستی کو اوپر اٹھا کر اوندھے منہ گرا دیا تھا اور پھر ان بدکاروں پر پتھر بھی برسائے گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے بدکاروں کو بلندی سے سر کے بل گرا کر ہلاک کردینا چاہیے۔ لیکن کسی کو بھی پکڑے جانے کے باوجود سخت سزا نہیں دی گئی۔ پاکستان میں ایسے نام نہاد دانش ور اور سیاست دان بھی موجود ہیں جو سرے سے سزائے موت کے خلاف ہیں۔ یعنی بدکاروں کو جیل میں ڈال کر عوام کے خرچ پر سہولتیں فراہم کی جائیں اور سرکار کی طرف سے انہیں روٹی، کپڑا اور رہائش فراہم کی جائے۔ پنجاب کے شہر قصور میں متعدد بچوں کے ساتھ بدکاری کا واقعہ ذرائع ابلاغ میں بہت نمایاں کیا گیا۔ لیکن اب تک یہ معلوم نہیں ہوا کہ مجرموں کو کیا سزا دی گئی۔ اب ایک تازہ ترین واردات سندھ کے شہر سجاول میں پیش آئی ہے۔ روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق ایک ہندو لڑکے کے ساتھ پیپلز پارٹی کے با اثر افراد نے اجتماعی زیادتی کی اور پھر بلیک میل بھی کیا گیا۔ مجرموں کو پیپلز پارٹی کی پشت پناہی بھی حاصل ہے چنانچہ یہ خاندان اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر حیدر آباد منتقل ہوگیا۔ پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے حسب معمول انکار کردیا۔ ایک بااثر شخص کے خلاف پولیس کی کیا جرأت کہ وہ رپورٹ درج کرے۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ مرکزی مجرم نہ صرف پیپلز پارٹی کا عہدیدار ہے بلکہ آئندہ انتخابات میں قومی اسمبلی کے ٹکٹ کا بھی امیدوار ہے۔ بہرحال وزیر داخلہ سندھ نے و اقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ مجرموں کے خلاف کوئی امتیاز نہیں برتا جائے گا۔ ایک رپورٹ کے مطابق اجتماعی زیادتی میں اسپتال کا ایک ملازم اور ڈرائیور بھی ملوث ہیں۔ ممکن ہے انہی کو مرکزی مجرم قرار دے کر پیپلز پارٹی کے عہدیدار کو بچالیا جائے۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق جنسی تشدد کے واقعات میں 76 فیصد دیہی اور 24 فیصد شہری علاقوں سے رپورٹ ہوئے۔ ایسے معاملات میں پنجاب سب سے آگے ہے۔