طالبان کیوں دشمن بنے؟

473

مشیر قومی سلامتی ناصر خان جنجوعہ نے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اتحادی بننے کی وجہ سے طالبان نے پاکستان پر حملے کیے۔ مشیر قومی سلامتی کو شاید یہ بات ابھی معلوم ہوئی ہو لیکن یہ کوئی انکشاف نہیں۔ مشہورہے کہ دشمن کا دوست دشمن ہوتا ہے۔ کیا یہ حقیقت نہیں کہ امریکا نے طالبان کے ملک افغانستان پر قبضہ کر رکھا ہے اور اس قبضے کو مستحکم کرنے میں پاکستان کے حکمرانوں نے بھرپور تعاون کیا۔ 2001ء سے پہلے افغانستان پر طالبان کی حکومت تھی جس کو پاکستان نے تسلیم کر رکھا تھا۔ لیکن امریکا نے حملہ کر کے نہ صرف طالبان کی حکومت ختم کردی بلکہ افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ اقوام متحدہ کے قوانین غاصب طاقتوں کے خلاف مزاحمت کرنے کی اجازت دیتے ہیں چنانچہ افغان طالبان کی مزاحمت عالمی قوانین اور انصاف کے عین مطابق تھی۔ مگر پاکستان کے حکمرانوں نے غاصبوں کا ساتھ دیا تو طالبان نے پاکستان کو بھی دشمنوں کی فہرست میں شامل کرلیا۔ لیکن پاکستان کی صورت حال یہ ہے کہ نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے۔ طالبان نے دشمن سمجھا اور جس امریکا کے لیے ان کو دشمن بنایا تھا وہ بھی دشمنی پر اترا ہوا ہے۔ ناصر جنجوعہ نے صحیح کہا کہ امریکا ہم پر طالبان کی حمایت اور طالبان ہم پر امریکی حمایت کا الزام لگاتے ہیں۔ایسا تو ہونا ہی تھا۔ جب اسلامی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف یہود و نصاریٰ کا ساتھ دیا جائے تو ایسا ہی ہوگا۔ قرآن کریم میں صاف کہہ دیا گیا ہے کہ یہود و نصاریٰ اس وقت تک مسلمانوں کے دوست نہیں ہوسکتے جب تک مسلمان انہی کے طور طریقوں کو نہ اپنا لیں۔ اس کی بھی کوشش ایک عرصے سے ہو رہی ہے اور مسلم و غیر مسلم میں امتیاز ختم ہوتا جارہا ہے۔ علامہ اقبالؒ نے بہت پہلے کہہ دیا تھا کہ مغربی تعلیم اپنے ساتھ الحاد بھی لے کر آئی ہے۔ اب صرف یہ واویلا رہ گیا ہے کہ عالمی برادری پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف کرے۔ یعنی وہ قربانیاں جو امریکا کی خاطر دی گئی ہیں مگر عالمی برادری تو کیا خود امریکا تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور بار بار ڈومور کا چابک برسا رہا ہے۔ ناصر خان جنجوعہ کہتے ہیں کہ ہم صدر ٹرمپ کے ڈومور کے مطالبے کو یکسر مسترد کرتے ہیں۔ لیکن اس کا وقت نکل چکا ہے۔ امریکا بھی ڈومور کا عادی ہوگیا ہے اور پاکستانی حکمران بھی امریکی انگلی پکڑے بغیر چلنا بھول چکے ہیں۔ ناصر جنجوعہ نے امریکا کو یاد دلایا کہ پاکستان اتحادی نہ ہوتا تو امریکا سپر پاور نہیں بن سکتا تھا۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اسلام آباد کو تنہا چھوڑ دیا گیا۔ ظاہر ہے کہ کام نکل جانے کے بعد غلاموں کو کون سینے سے لگائے رکھتا ہے۔ امریکا نے پاکستان کے تعاون سے دوسری سپر طاقت سوویت یونین کو شکست دے دی۔ اس نے اپنا مفاد حاصل کر کے پاکستان کو ایک طرف کیا۔ اس میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کا نقص بھی ہے۔ اس نے محاورے کے مطابق اپنے سارے انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھ دیے۔ اب عالمی برادری کی دہائی کیا دینا اور عالمی برادری ہے کیا، امریکا ہی کی کاسہ لیس ہے۔ اب تو عرب ممالک بھی امریکا کی خوشنودی کے لیے اسرائیل کی طرف دوڑ رہے ہیں ۔ ناصر جنجوعہ نے انسداد دہشت گردی کے موضوع پر سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے یاد دلایا کہ دہشت گردی کی وجہ سے پاکستان کی معیشت کو 250ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، بھاری جانی نقصان ہوا اور تعلیمی ادارے، مارکیٹیں اور پاور ہاؤسز تباہ ہوگئے۔ یہ سب اپنی جگہ لیکن اس کی وجہ بھی ریٹائرڈ جنرل جنجوعہ نے خود بتا دی ہے کہ طالبان پاکستان دشمنی پر کیوں اترآئے۔ ایک سوال اب تک تشنۂ جواب ہے کہ افغانستان میں طالبان کو مستحکم کرنے میں کس کس نے کردا ر ادا کیا۔ پیپلز پارٹی کے نو عمر سربراہ بلاول زرداری تو خود اپنی پارٹی کی تاریخ سے واقف نہیں ہیں اور عمران خان کو طالبان خان یا طالبان کا بھائی ہونے کے طعنے دیتے ہیں۔ پارٹی کے سینئر رہنماؤں نے بھی کسی مصلحت کے تحت ان پر حقیقت آشکار نہیں کی کہ یہ کام بلاول کی والدہ نے اپنے وفاقی وزیر جنرل بابر کی مدد سے انجام دیا تھا ورنہ مدرسوں کے طالبان علم جدید جنگی صلاحیتیں نہیں رکھتے تھے۔ بلاول کو کبھی موقع ملے تو اپنی والدہ کا ٹی وی کلپ ضرور دیکھیں جس میں بڑے فخر سے کہا تھا “Yes’ I am mother of Taliban” یعنی ہاں میں طالبان کی ماں ہوں اس رشتے سے تو طالبان بلاول زرداری کے بھائی ہوئے۔ پاکستان امریکا سے مایوس ہو کر دیگر ممالک روس و چین وغیرہ سے تعلقات بڑھا رہا ہے لیکن اس نئے راستے پر بڑی احتیاط سے چلنا ہوگا کہ کہیں پھر کوئی ٹھوکر نہ لگے۔