متحدہ مجلس عمل کی عدم فعالیت

693

۔2002 کے انتخابات کے بعد ساحل سمندر کے ایک لگژری ہوٹل میں کچھ لوگ بیٹھے چائے پی رہے تھے۔ یہ چوں کہ ایک مہنگا ریسٹورینٹ ہے اس لیے اعلیٰ سوسائٹی یعنی دولت مند طبقے کے لوگ تھے۔ وہاں پر ایک نجی ٹی وی چینل کا نمائندہ مختلف افراد سے انٹرویو لے رہا تھا وہ ایک الٹرا ماڈرن جوڑے کے پاس گیا لڑکا اور لڑکی دونوں جینز کی پینٹ اور اسی کی مطابقت سے قمیص پہنے ہوئے تھے۔ چینل کے نمائندے نے ان سے سوال کیا کہ آپ نے پچھلے انتخاب میں کس پارٹی کو ووٹ دیا تھا ان دونوں نے جواب دیا ہم نے متحدہ مجلس عمل کو ووٹ دیا ہے۔ ان دونوں کے لباس ان کے برگر فیملی سے تعلق کی گواہی دے رہے تھے چینل کا نمائندہ قدرے حیران ہوا اور ان سے کہا کہ یہ تو ملاؤں کی پارٹی ہے آپ نے ان کو ووٹ دیا؟ شاید لڑکی نے جواب دیا کہ ہم نے اس پارٹی کو اس وجہ سے ووٹ دیا کہ یہ امریکا کے خلاف ہے۔ ایک ٹاک شو میں جب فاروق ستار سے سوال کیا گیا کہ کیا وجہ ہے کہ کراچی میں اس دفعہ کئی نشستوں پر متحدہ مجلس عمل نے آپ کو شکست دی ہے، فاروق ستار نے جواب دیا کہ پورے ملک میں چوں کہ اینٹی امریکا ایک رو چل رہی تھی اس وجہ سے ایم ایم اے کامیاب ہوئی ہے۔
اس انتخاب میں متحدہ مجلس عمل نے تقریباً 45نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی خواتین اور دیگر مخصوص نشستیں شامل کر کے یہ تعداد 63تک پہنچ گئی تھی، یہ ایوان کی تیسری بڑی پارٹی تھی۔ کے پی کے میں متحدہ مجلس عمل نے حکومت بنائی تھی۔ ایک سیدھا سا سوال یہ ہے کہ کیا آج متحدہ مجلس عمل کی سیاسی پوزیشن ویسی ہی ہے جیسی2002 سے قبل تھی تو فی الوقت اس کا جواب نفی میں ہے جن چھ جماعتوں کا یہ اتحاد بنا تھا ان سب نے مل کر ایک سیاسی فضاء بنائی تھی۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی ایک سیاسی ضرورت بھی تھی کہ وہ امریکا اور مغرب کو یہ دکھانا چاہتے تھے کہ پاکستان میں دینی قوتوں کا اتحاد آگے بڑھ رہا ہے اگر آپ نے میری سرپرستی نہ کی تو یہ دینی قوتیں ملک میں چھا جائیں گی یہی وجہ ہے کہ پورے ملک میں متحدہ مجلس عمل کے بہت بڑے بڑے مظاہرے ہوئے جن کو درپردہ ریاستی اداروں کی خاموش حمایت بھی حاصل تھی پرویز مشرف متحدہ مجلس عمل کا خوف دلا کر اپنے اقتدار کو مستحکم کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایک دوسری حقیقت یہ بھی ہے متحدہ مجلس عمل کو جو سیاسی عروج حاصل ہوا تھا وہ اس میں شامل تمام جماعتوں کے سربراہوں کی دن رات محنت کا نتیجہ تھا۔ قاضی حسین احمد تو ایک طویل عرصے سے ملک میں دینی جماعتوں کے اتحاد کی مہم چلارہے تھے، دوسری طرف پرویز مشرف کی حکومت نے جب مدارس کے معاملات میں دخل دینا شروع کیا تو اس سے ایک کھلبلی سی مچ گئی مدارس کے آڈٹ کی باتیں سامنے آنے لگیں۔ جے یو آئی ف اور س بھی اس امر پر مجبور ہوئیں کہ حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے دینی جماعتوں کا متحد ہونا ضروری ہے۔
متحدہ مجلس عمل اپنا اتحاد کیوں قائم نہ رکھ سکی یہ ایک بہت تکلیف دہ سوال ہے اور پھر اب یہ دوبارہ کیوں بنائی گئی ہے تو اس سوال کا جواب تو بہت آسان ہے کہ آنے والے انتخابات میں اگر دینی قوتیں متحد نہ ہوئیں تو لا دینی قوتیں کامیاب ہو جائیں گی۔ لیکن صرف اتحاد بنا لینے سے یا وقتاً فوقتاً نشست و برخاست کرلینے سے کامیابی نہیں مل سکتی اس کے لیے ہر جماعت کو جان توڑ کوششیں کرنا ہوگی 2002 کی ملکی اور بین الاقوامی صورت حال کچھ اور تھی آج کچھ اور ہے، اس وقت اگر اینٹی امریکا مہم نے فتح سے ہمکنار کیا تھا تو کیا آج امریکا سے مسلمانوں کی نفرت ختم ہوگئی ہے ایسا نہیں ہے بلکہ پچھلے دس پندرہ برسوں میں اور بالخصوص ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد تو اس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
آج غزہ میں اسرائیل اور مقبوضہ کشمیر میں بھارت نے مسلمانوں کا جو قتل عام کیا ہے اس کو امریکا کی بھرپور سرپرستی حاصل ہے اس نے اقوام متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قرارداد بھی نہیں آنے دی اور پھر امریکی پالیسیاں بھی ایسی بنائی جارہی ہیں جو پاکستان کے صریحاً خلاف ہے پاکستان کی امداد بند کرکے اس کا معاشی مقاطعہ کیا جارہا ہے ڈو مور کا مسلسل مطالبہ کیا جارہا ہے۔ پاکستان کو تنہا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے بھارت سے پاکستان کا پانی بند کروایا جارہا ہے بھارت نہتے کشمیریوں سے ان کی بینائی چھین رہا ہے۔ برصغیر میں بھارت امریکا کے پولیس مین کا کردار ادا کررہا ہے۔
مندرجہ بالا وجوہ ایسی جاندار ہیں کہ دینی جماعتوں کو پورے ملک میں امریکا کے خلاف ایک بھر پور مہم چلانے کی ضرورت ہے اس میں ملک کی دیگر سیاسی جماعتوں سے بھی معاونت حاصل کی جاسکتی ہے۔ متحدہ مجلس عمل نے اب تک اپنی کسی بھی قسم کی سرگرمیوں کا آغاز نہیں کیا۔ مولانا سمیع الحق کو پی ٹی آئی نے دھوکا دیا ہے لہٰذا ان کو دوبارہ مجلس عمل کا حصہ بنانے کی تگ ودو کی جانی چاہیے اسی طرح جے یو پی کے دوسرے دھڑے کو بھی شامل کرنے کی کوشش کی جائے پچھلے دو تین برسوں سے ایک نئی تنظیم تحریک لبیک یارسول اللہ نے کئی ضمنی انتخاب میں حصہ لیا ہے اور قابل ذکر ووٹ حاصل کیے ہیں پھر فیض آباد کے دھرنے کی وجہ سے اس تنظیم کو نئی شناخت ملی ہے اس تنظیم کو بھی مجلس عمل میں شمولیت کے لیے کہا جائے۔
ویسے شاید یہ مجلس عمل میں شامل نہ ہوں وہ اس وقت تنہا پرواز کے چکر میں ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی جماعتوں کو اپنی انفرادی سرگرمیوں کے بجائے اجتماعی سرگرمیوں کا سلسلہ جلد از جلد شروع کر دینا چاہیے۔