ہم حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کو یکسر مسترد کرتے ہیں ۔ سینیٹر میاں رضا ربانی

435

کراچی (اسٹا ف رپورٹر)سابق چیئرمین سینیٹ اور پیپلز پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر میاں رضا ربانی نے وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کردہ ایمنسٹی اسکیم کو مسترد کرتے ہوئے صدر مملکت سے درخواست کی ہے کہ وہ حکومتی ایڈوائس کو ماننے سے انکار کردیں۔ایمنسٹی اسکیم کالے دھن کو صاف کرنے کی کوشش ہے ۔ یہ بگ بزنس ، سرمایہ دار اور ایلیٹ کلاس کو سہولت دینے کے لیے لائی جا رہی ہے ۔ ہم حکومت کی ایمنسٹی اسکیم کو یکسر مسترد کرتے ہیں ۔ 

سینیٹ میں اپوزیشن جماعتوں کو چاہئے کہ وہ اس آرڈی ننس کو رد کرنے کے لیے قرار داد لے کر آئیں ۔اپنی آئینی مدت کے آخری ایام میں حکومت کی جانب سے ایمنسٹی اسکیم متعارف کرانا سمجھ سے بالا تر ہے ۔ وزیراعظم کو چیئرمین سینیٹ کے خلاف بیان دینا زیب نہیں دیتا ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعہ کو قصر ناز میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ اس موقع پر صوبائی وزیر سعید غنی ، پیپلز پارٹی سندھ کے جنرل سیکرٹری وقار مہدی اور راشد ربانی بھی موجود تھے ۔ 

میاں رضا ربانی نے کہا کہ حکومت نے عجلت میں ایمنسٹی اسکیم کا فیصلہ کیا ہے حکومت کو اپنی آئینی مدت پوری کرنے میں 55 دن باقی ہیں ۔ اتنے بڑے فیصلے کرنا حیرت انگیز ہے ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے عجلت میں پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو بھی فروخت کرنے کی بات کی ہے ۔ عجلت میں ایسے فیصلے کیوں کیے جا رہے ہیں ۔ رضا ربانی نے کہا کہ اسکی ایسی کونسل سے منظوری لی گئی جسکی کوئی آئینی وقانونی اور رولز اینڈ بزنس میں کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ یہ نام نہاد اکنامک ایڈوائزری کونسل کو ایک نوٹیفکیشن کے ذریعہ وجود میں لایا گیا ۔ 

اس کونسل میں اکثریت منتخب نمائندوں کی نہیں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی نام نہاد اسکیم ہے ۔ پارلیمان کے دونوں ہاوسز کے اجلاس ہونے جارہے ہیں ۔ پارلیمان سے منظوری لی جاتی۔ میری صدر مملکت سے درخواست ہے کہ وہ حکومتی ایڈوائس کو ماننے سے انکار کردیں۔ اکنامک ایڈوائزری کانسل غیر منتخب باڈی ہے ۔ یہ آرٹیکل 77 کی بھی خلاف ورزی ہے ۔ اس اسکیم کے ذریعہ کالے دھن کو صاف کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ یہ اسکیم ایک بڑے بزنس کو چھوٹ دینے کے لیے لائی گئی تاکہ پہلے غیر قانونی طریقے سے پیسہ ملک سے باہر لے جایا جائے اور پھر وہاں جائیدادیں بنائی جائیں ، بزنس کیے جائیں اور پھر یہ پیسہ اونے پونے ٹیکس دے کر واپس لے آئیں ۔

انہوں نے کہا کہ ایمنسٹی اسکیم بگ بزنس ، سرمایہ دار اور ایلیٹ کلاس کے لیے لائی جا رہی ہے ۔ اس سے پہلے بھی موجودہ حکومت کی جانب سے تین اسکیمیں لائی گئیں ، جو ناکام ہو گئیں ۔ یہ افسوس کی بات ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں صرف سرمایہ داروں کے فائدہ کے لیئے اسکیمیں متعارف کرائی گئیں ۔غریب اور متوسط طبقے کے لیئے کوئی اسکیم نہیں لائی گئی بلکہ یہ لوگ مہنگائی کے چکی میں پس رہے ہیں جس سے تمام کالے دھندے کو قانونی تحفظ دیا جائے جبکہ غریب اور متوسط طبقے کے لوگ بلا واسطہ اور بالواسطہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کے کرپشن کے خلاف قانون کا دستخط کنندہ ہے یہ اسکیم اسکی بھی خلاف ورزی ہوگی۔

اگر اس ضمن میں آرڈیننس لایا گیا تو پھر اپوزیشن کی تمام جماعتوں کے سامنے یہ بات رکھیں گے کہ آرڈیننس کو رد کرنے کے لیئے متحد ہوں۔ انہوں نے پارلیمینٹ میں اسکیم کی مخالفت کا بھی اعلان کیاتو اس اسکیم کے خلاف پہلے ہم اپنی پارلیمانی پارٹی سے منظوری لیں گے اور پھر اپوزیشن جماعتوں سے کہیں گے کہ اس کو رد کرنے کے لیے سینیٹ میں قرار داد لیکر آئے ۔بزنس کمیونٹی بھی اس اسکیم کے خلاف آواز بلند کرے مزکورہ اسکیم سے ملکی زرمبادلہ کے زخائر میں اضافہ نہیں ہوگا۔ 

اکنامک کونسل کی کوئی قانونی حیثیت نہیں دونوں ایوان موجود ہیں انہیں بائی پاس کیا جارہا ہے نام نہاد قانون سازی کی کوئی حیثیت نہیں ویک اینڈ پر آرڈیننس کا اجرا کیوں کیا گیا اس آرڈننس کی کابینہ نے منظوری بھی نہیں دی یہ آرٹیکل 77کی خلاف ورزی ہے ہے ۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سیاسی مسئلوں کو پارلیمنٹ میں حل ہونا چاہئے ۔ ہم انہیں عدالتوں میں نہیں لے کر جانا چاہتے ۔

ایک اور سوال کے جواب میں سینیٹر رضاربانی نے کہا کہ وزیراعظم کے چیئرمین سینیٹ کے متعلق بیانات پر خاموشی اختیار کی تھی ۔ وزیراعظم کا یہ کہنا کہ کوئی پرزائیڈنگ آفیسر انہیں نہیں بلاسکتا تو یہ غلط ہے وفاقی کابینہ آئینی طور پر سینیٹ کے آگے جوابدہ ہے۔میاں رضاربانی نے آصف علی زرداری کی ناراضگی سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ناراضگی پارٹی کا اندرونی معاملہ ہے ۔ ہم اس پر باہر بات نہیں کرنا چاہتے ۔ یہ پارٹی کے اندر ہی حل ہو گا ۔