سید علی گیلانی کے جانشین

695

تحریک آزادی کشمیر کے بزرگ رہنما اور حریت کانفرنس کے قائد سید علی گیلانی نے اپنی بگڑتی ہوئی صحت کے پیش نظر اپنے دیرینہ ساتھی محترم اشرف صحرائی کو اپنا جانشین مقرر کردیا ہے۔ سرینگر سے آمدہ اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ حریت کانفرنس کی مجلس شوریٰ نے اپنے اجلاس میں گیلانی صاحب کے اس فیصلے کی توثیق کردی ہے اور صحرائی صاحب کو حریت کانفرنس کا قائم مقام چیئرمین مقرر کردیا ہے۔ وہ پارٹی عہدیداروں کے انتخابات تک اس منصب پر کام کرتے رہیں گے۔ توقع ہے کہ انتخابات کے عمل میں انہیں باضابطہ طور پر چیئرمین منتخب کرلیا جائے گا۔ سید علی گیلانی اس وقت سے حریت کانفرنس کے چیئرمین چلے آرہے ہیں جب یہ تنظیم قائم کی گئی تھی اور اس میں شامل 24 جماعتوں اور گروپوں نے تحریک آزادی کو سیاسی سطح پر آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا تھا۔ گیلانی صاحب نے طویل عرصہ تک حریت کانفرنس کی قیادت کی اور نہایت مستعدی اور جانفشانی کے ساتھ کشمیری عوام کے جذبات کو اُجاگر کیا۔ انہیں قابض بھارتی افواج اور حکام کی طرف سے مسلسل پابندیوں کا نشانہ بنایا جاتا رہا۔ انہیں گھر میں نظر بند رکھا گیا اور وہ برسوں سے نظر بند چلے آرہے ہیں۔ انہیں مسجد میں نماز پڑھنے سے روکا گیا۔ حتیٰ کہ نماز جمعہ اور عیدین پڑھنے پر بھی پابندی لگائی گئی اور یہ پابندی بدستور برقرار ہے۔ جبر اور دھونس کی اس فضا میں بھارتی حکام نے ان سے مذاکرات کرنے کی بھی کوشش کی لیکن گیلانی صاحب نے کسی بھی مذاکرات کار سے ملنے سے انکار کردیا۔ ان کا موقف تھا اور آج بھی وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ وہ بھارت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کے خلاف نہیں ہیں لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فضا کو سازگار بنایا جائے۔ بھارت اولین قدم کے طور پر مقبوضہ کشمیر سے اپنی قابض افواج واپس بلانے کا اعلان کرے، تمام کشمیری سیاسی قیدیوں کو جنہیں دہشت گردی کی آڑ میں پکڑا گیا ہے غیر مشروط طور پر رہا کیا جائے، بھارت برملا ریاست جموں و کشمیر کے متنازع ہونے کا اعلان کرے اور پاکستان کو اس تنازع کا ایک فریق تسلیم کرتے ہوئے کشمیری نمائندوں کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بٹھائے اور کشمیریوں کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حق خود ارادیت دینے کے یک نکاتی ایجنڈے پر بات کرے۔ ظاہر ہے کہ بھارت کو یہ شرائط منظور نہیں ہیں، اسی لیے گیلانی صاحب نے بھی اس کے ساتھ مذاکرات سے انکار کررکھا ہے۔
گیلانی صاحب اس وقت نوے کے پیٹے میں ہیں، دل کے مریض ہیں، ان کی اوپن ہارٹ سرجری ہوچکی ہے اور دل کی دھڑکن کو نارمل رکھنے کے لیے ان کے دل میں پیس میکر (Pace Maker) لگا ہوا ہے۔ ان کا ایک گردہ بھی ناکارہ ہوچکا ہے جب کہ ڈاکٹروں نے ان کا پتّا بھی نکال دیا ہے، وہ بہت سی بیماریوں کی پوٹ میں ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے انہیں ناقابل شکست عزم اور حوصلے سے نوازا ہے، وہ اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہوئے، انہیں یقین ہے کہ وادی کشمیر پر آزادی کا سورج ضرور طلوع ہوگا اور ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے۔ یہ ہے وہ پس منظر جس میں گیلانی صاحب نے اپنے قابل اعتماد رفیق جناب اشرف صحرائی کو اپنی جانشینی کے لیے چنا ہے۔ ان کا پورا نام محمد اشرف علی ہے لیکن اپنے ادبی اور شاعری ذوق کے سبب اشرف صحرائی کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ وہ 1944ء میں ٹیکی پورہ لولاب ضلع کپواڑہ میں پیدا ہوئے، وہیں ابتدائی تعلیم حاصل کی، بعدازاں مزید تعلیم کے لیے اپنے والدین کے ہمراہ سوگام چلے گئے۔ انہوں نے اعلیٰ تعلیمی مدارج علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں طے کیے۔ صحرائی صاحب اردو، فارسی اور عربی میں یکساں مہارت رکھتے ہیں اور اپنے وطن کی آزادی کے لیے ابتدا ہی سے کوشاں رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ابھی بائیس سال کے تھے کہ حکومت کے خلاف مظاہرہ کرنے پر انہیں گرفتار کرلیا گیا اور انہیں جیل میں قید و بند کی سزا بھگتنا پڑی۔ انہوں نے اپنے لیے دعوت دین اور سیاست کا میدان منتخب کیا تو ان کی نظر جماعت اسلامی پر پڑی جو ان دونوں شعبوں میں اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔ سید علی گیلانی اس وقت جماعت اسلامی ضلع کپواڑہ کے امیر تھے اور اپنی فعال شخصیت کے سبب نوجوانوں میں انتہائی مقبول تھے۔ اشرف صحرائی بھی ان کے حلقہ ارادت میں شامل ہوگئے۔ اس طرح جماعت اسلامی کو ایک گوہر نایاب میسر آگیا۔ وہ جماعت اسلامی میں مختلف تنظیمی ذمے داریاں ادا کرتے رہے، یہاں تک کہ جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کے قائم مقام امیر اور کافی عرصے تک جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل بھی رہے۔ 1989ء میں جب مقبوضہ علاقے میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا اور کشمیری نوجوانوں نے بھارت کے جبر و تشدد اور استحصالی ہتھکنڈوں سے تنگ آکر اس کے خلاف بندوق اُٹھالی تو جماعت اسلامی نے تحریک آزادی کے ساتھ اپنی مکمل کمٹمنٹ کے باوجود نوجوانوں کی مسلح جدوجہد سے تنظیمی طور پر الگ رہنے کا فیصلہ کیا، یہ اس لیے بھی ضروری تھا کہ اگر وہ ایسا نہ کرتی تو جماعت اسلامی پر پابندی لگ جاتی اور اس کے لیے دعوت دین کا کام کرنا بھی ناممکن نہ رہتا۔ البتہ جماعت کے جو لوگ مسلح جدوجہد سے ہمدردی رکھتے تھے انہیں جماعت سے الگ کردیا گیا کہ وہ اپنا لائحہ عمل خود طے کریں، جو لوگ جماعت اسلامی کے اس فیصلے سے متاثر ہوئے ان میں سید علی گیلانی اور اشرف صحرائی کا نام قابل ذکر ہے۔ سید گیلانی نے نوجوانوں کی مسلح جدوجہد کو سیاسی حمایت فراہم کرنے کے لیے حریت کانفرنس کی بنیاد رکھی اور اشرف صحرائی ان کے دست و بازو بن گئے۔ اب گیلانی صاحب کے قویٰ شل ہوگئے ہیں تو صحرائی صاحب نے اس کشتی کی پتوار سنبھال لی ہے۔ کبرسنی کے باوجود ان کا عزم جوان اور حوصلہ بلند ہے۔
پس تحریر۔ کالم لکھا جاچکا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی شرمناک دہشت گردی کی روح فرسا خبر آگئی پورا کشمیر لہولہان ہو کر رہ گیا ایسے میں حریت کانفرنس ہی کشمیری نوجوانوں کو حوصلہ دے سکتی ہے اور اشرف صحرائی اپنی پُرعزم قیادت سے قوم کو مایوسی سے نکال سکتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کا حامی و ناصر ہو آمین۔