امت کے مسلمات سے انحراف

375

سعودی ولی عہد نے طویل عرصے سے امت مسلمہ کے متفقہ موقف کے مقابلے میں ایک بالکل الٹ موقف پیش کرکے پوری امت کو حیران کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین کا حق ہے۔ یہ درست ہے کہ عالم اسلام کے تمام ممالک کی طرح سعودی عرب بھی مغرب کے پنجوں میں پھنس چکا ہے اور کسی نہ کسی طرح مسلمان ممالک کو جمہوریت، روشن خیال، آزادی افکار اور خواتین کے لیے کھلے معاشرے کا تاثر دینے کے لیے بہت سے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ایک زمانے میں جنرل پرویز مشرف بھی پاکستان کو روشن خیال ثابت کرنے کے لیے مخلوط میراتھن اور خواتین کی ہر شعبے میں نمائندگی اور پزیرائی پر زور دیتے تھے۔ پرویز مشرف کے ساتھ ان کی روشن خیالی بھی گئی۔ انہوں نے بھی پاکستانیوں کے بہت سے مسلمہ امور کو چھیڑنے کی کوشش کی تھی۔ لیکن پاکستانیوں نے ڈاکٹر قدیر، ایٹمی پروگرام، جہاد کشمیر، امریکا کی دوستی، امت مسلمہ، روشن خیالی، نصاب تعلیم میں تبدیلی وغیرہ کسی خیال کو تسلیم نہیں کیا۔ بیشتر چیزیں اور خیالات ان کے ساتھ ہی چلے گئے۔ البتہ جو قوانین اور پالیسیاں وہ مسلط کر گئے تھے وہ جاری ہیں اور پاکستان اور پورا خطہ ان کا نقصان بھگت رہا ہے۔ یہی کام ولی عہد محمد بن سلمان نے کیا، ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین کا حق ہے۔ ان کا یہ کہنا بجا ہے کہ اسرائیل کو یا ہر کسی کو اپنی سرزمین کے حصول کا حق ہے۔ لیکن اسرائیل تو فلسطینیوں کی سرزمین پر ان کو گھروں سے بے دخل کرکے مسلط کیا گیا ہے۔ یہاں مقیم لوگ دنیا بھر سے لا کر بسائے گئے ہیں ان کو کسی طرح بھی فلسطین پر حق نہیں دیا جاسکتا۔ اگرچہ یہ بیان اس دو ریاستی حل کی تائید ہی ہے جو 2002ء سے پیش کیا جارہا ہے اور سعودی عرب بھی اس کا حامی رہا ہے لیکن اسرائیلیوں اور یہودیوں کے لیے سرزمین کا حق اس طرح تسلیم کرنے کا مطلب یہ لیا جارہا ہے کہ ولی عہد نے اسرائیل کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ ابھی اس بیان کو سعودی عرب کی سرکاری پالیسی قرار نہیں دیا جاسکتا لیکن طاقتور ولی عہد کے بیان کے اثرات کو رد بھی نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ سعودی فرمانبروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امت مسلمہ کے دیرینہ موقف کو دہرایا ہے اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے بین الاقوامی کوششیں تیز کی جائیں۔ انہوں نے وہی موقف دہرایا جو امت مسلمہ کا متفقہ اور مسلمہ موقف ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ مسئلہ فلسطین کے حوالے سے مملکت کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ شاہ سلمان نے کہا ہے کہ سعودی عرب فلسطینیوں کے اس قانونی حق کی مکمل تائید کرتا ہے کہ فلسطینیوں کے لیے ایک آزاد ریاست کا قیام عمل میں لایا جائے جس کا دارالحکومت بیت المقدس ہو۔ خادم حرمین کے اس بیان کو ولی عہد کے بیان کی تردید بھی نہیں قرار دیا جاسکتا۔ ممکن ہے اس انٹرویو کی اشاعت اور مندرجات میں اٹلانٹک میگزین اور امریکی صحافیوں نے بھی کوئی ہوشیاری دکھائی ہو لیکن اگر ولی عہد اس راستے پر چل نکلے ہیں تو یہ سعودی عرب اور امت مسلمہ دونوں کے لیے نقصان کا باعث ہوگا۔ جس طرح پاکستان اب تک اپنے مسلمات کو چھیڑ کر امن سے محروم ہے اسی طرح سعودی عرب بھی اپنے امور میں اپنے مسلمات کو چھیڑ کر اپنے لیے مسائل پیدا کرے گا۔
اس انٹرویو میں ایران کو بھی خاص طور پر نشانہ بنایا گیا ہے بلکہ ایرانی سپریم لیڈر کے بارے میں جملے تو امریکی میڈیا اور ٹرمپ والے لگ رہے ہیں۔ اب لگتا ہے کہ انٹرویو لکھنے والے نے شہزادہ محمد بن سلمان کے متحرک اور تیز و طرار انداز کو استعمال کرتے ہوئے امریکی و اسرائیلی موقف انٹرویو میں شامل کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ بات ابھی نہیں کہی جاسکتی کہ اسرائیل کے حوالے سے کسی یوٹرن کی صورت میں عربوں خصوصاً سعودیوں کا کیا ردعمل ہوگا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ امت مسلمہ اور امت کے حکمران اب دو الگ الگ صفوں میں ہیں لہٰذا حکمرانوں کے ہر فیصلے کو امت کا فیصلہ نہیں کہا جاسکتا۔ چلیں اسرائیل سمیت ہر قوم کے حق کو تسلیم کیا جارہا ہے تو لگے ہاتھوں اپنی سرزمین رکھنے والوں کو تو ان کے گھر پہنچنے دیا جائے۔ روہنگیا کیمپوں میں، شامی کیمپوں میں، کرد کیمپوں میں، افغان کیمپوں میں، کشمیری کیمپوں میں۔ حتیٰ کہ پاکستان کے ڈھائی لاکھ لوگ کیمپوں میں ہیں ان سب کی اپنی اپنی سرزمین ہے اس کے لیے کسی معاہدے کی ضرورت نہیں بس ان کو اپنی اپنی سرزمین پر امن کے ساتھ واپس جانے دیا جائے۔ امید ہے اس حوالے سے بھی کوئی پیش رفت کی جائے گی۔