گالیوں کا مقابلہ

268

وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بڑی تیزی سے اپنے تاحیات قائد میاں نواز شریف کی زبان سیکھتے جارہے ہیں۔ انہیں سینیٹ کے نو منتخب چیئرمین کے ہاتھوں ن لیگ کی شکست کا صدمہ ہے لیکن اپنے غم و غصے کے اظہار کے لیے زبان تو مناسب استعمال کریں۔ یہ زبان ہی ہے جو انسان کی شناخت بن جاتی ہے۔ گزشتہ جمعرات کو اپنی پہلی پریس کانفرنس میں ٹیکس ایمنسٹی کی تفصیلات سے ہٹ کر زخم دل کو کھرچتے ہوئے فرمایا ’’چیئرمین سینیٹ چیئرمین نہیں چور ہے، اس کو کبھی معاف نہیں کروں گا‘ ووٹ چوری کرنے والے کو ہر جگہ گندا کرتا رہوں گا‘‘۔ یہ زبان استعمال کرنے پر کون گندا ہو رہا ہے ،کبھی تنہائی میں اس پر بھی غور فرمائیں۔ وزیر اعظم نے فرمایا میں ایسی سینیٹ کو نہیں مانتا۔ عمران خان تو ایک عرصے سے قومی اسمبلی کے بارے میں ایسا ہی کچھ کہتے رہے ہیں کہ وہاں سب چور بیٹھے ہیں گو کہ عمران خان خود بھی ان چوروں میں شامل ہیں ۔ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے نو عمرصدر نشین بلاول زرداری نعرہ لگاتے ہیں کہ نواز شریف گالی اور عمران خان سازشی ہیں۔ میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی اٹھتے بیٹھتے عمران اور آصف زرداری کو کوستے ہیں۔ ایک دوسرے پر تبّرا بھیجنے کا سلسلہ دراز ہوتا جارہا ہے۔ عمران خان فرماتے ہیں کہ پنجاب کو ڈاکو سے نجات دلائی اب سندھ کی باری ہے۔ نواب شاہ میں خطاب کرتے ہوئے ڈاکو سے آگے بڑھ کر فرمایا ایک فرعون پنجاب میں ایک سندھ میں ہے، اب زرداری بھی کہے گا مجھے کیوں جیل بھیجا۔ گالیاں دینے کا مقابلہ بڑھتا جارہا ہے اور سمجھا جارہا ہے کہ جو جتنی زیادہ گالیاں دے گا وہ عوام میں اتنا ہی مقبول ہوگا۔ ایسی مقبولیت کی ایک مثال خادم حسین رضوی پیش کرچکے ہیں جو نام کے اعتبار سے تو حسین کے خادم ہیں اور نسبت امام رضا سے رکھتے ہیں۔ عوامی نیشنل پارٹی کے صدر اسفندیار ولی بھی میدان میں اتر آئے ہیں۔ ایک عجیب عالم ہے۔ پاکستان پر ہر طرف سے خطرات منڈلا رہے ہیں اور ہمارے نام نہاد رہنما ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال رہے ہیں۔ اس پر شاہد خاقان عباسی کا دعویٰ ہے کہ پاکستان چیلنجز سے نمٹنا جانتا ہے۔ عالمی برادری کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوائے۔ پہلے آپس میں تونمٹ لیں۔ صادق سنجرانی تو چیئرمین سینیٹ بن چکے، وزیر اعظم صاحب انہیں معاف کریں یا نہ کریں، چور کہیں یا کچھ اور۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ شاہد خاقان عباسی کی مدت ملازمت بھی چند ماہ کی رہ گئی ہے۔ ایسے میں اتحاد پیدا کرنے کی کوشش کرجائیں تو اچھا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ صدر مملکت کی غیر موجودگی میں چیئرمین سینیٹ قائم مقام صدر ہوتا ہے۔ ایسا موقع آیا تو کیا شاہد خاقان عباسی تب بھی انہیں چور کہیں گے۔ ابھی تو ان کے تاحیات قائد پر چوری کا مقدمہ چل رہا ہے جو بیرون ملک ملازمت کرتے رہے اور ایک لاکھ کی تنخواہ کاٹ کر 10ہزار لکھوائی گئی۔ کیا یہ چوری نہیں ہے؟