ن لیگ رہنما رمیش کمار بھی آج پی ٹی آئی میں شامل ہوسکتے ہیں

220

کراچی( تجزیہ: محمد انور) عام انتخابات کا انعقاد اگرچہ تاحال غیر یقینی ہے لیکن رواں جمہوری دور کی مدت ختم ہونے سے قبل مسلم لیگ نواز سے اقلیتی رکن ڈاکٹر رمیش کمار واکوانی اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے 2 سابق وزیر مملکت برائے
پیٹرولیم جام کمال، دوستین خان ڈومکی اور رکن قومی اسمبلی خالد کمال مگسی کی علاحدگی یقیناًنواز لیگ کے لیے تشویشناک ہوگی۔ رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ہفتے کو مسلم لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت کا اعلان کریں گے جبکہ جام کمال، دوستین خان اور خالد ڈومکی جمعرات کو یہ اعلان کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر رمیش کمار کی علیحدگی مسلم لیگ نواز کے لیے بہت بڑا دھچکا ہوگا کیونکہ وہ پاکستان ہندو کونسل کے سربراہ بھی ہیں گو کہ رمیش کمار کی مسلم لیگ سے ناراضی ملک میں رہنے والی ہندو برادری کی ناراضی تصور کی جائے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ لیگی رہنما اپنے نااہل صدر اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وزارت عظمٰی سے علاحدگی کے بعد سے خود کو سنبھال نہیں پارہے اور نواز شریف کی نااہلی کے صدمے سے تاحال دوچار ہیں تب ہی وہ اپنے درمیان موجود پارٹی رہنماؤں کو روکنے کی بھی کوشش نہیں کر رہے۔ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے ناراض ہونے والی اہم شخصیات پاکستان تحریک انصاف کو “پیاری” ہو رہی ہیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز ٹوٹ رہی ہے بلکہ تیزی سے ملکی سیاست سے باہر ہو رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب مسلم لیگ میں رہ جانے والے رہنما شریف خاندان سے نالاں ہوکر جلد ہی مسلم لیگ کا ایک نیا گروپ بنانے کے لیے غور شروع کرچکے ہیں۔ یہ گروپ چودھری نثار کی سرکردگی میں قائم ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ذات سے منسوب باتوں نے ان کی سیاست کی قلعی کھول دی ہے۔ لوگ یقین کرنے لگے ہیں کہ مسلم لیگ صرف خاندانی پارٹی تھی خاندان پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی وجہ سے وہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے مگر ایسا یقین ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کے غیر مستحکم ہونے سے زیادہ نواز شریف کو ان کے اور ان کے خاندان کی فکر ہے۔تمام صورتحال کا جائزہ لینے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس سال انتخابات وقت پر نہ ہونے کی صورت میں مسلم لیگ کی کامیابی تو کجا ملکی سیاست میں نمبر دو پوزیشن پر آنے کے امکانات بھی نہیں ہونگے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ رواں سال ایم کیو ایم کے بعد اب مسلم لیگ نواز بھی ٹوٹ رہی ہے۔