ہے کوئی مجبور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

334

اس بات پر بحث کی گنجائش بالکل نہیں ہے کہ 20 برس تک کسی ایک فریق کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ اگر اسما نواب نے اپنے والدین اور بھائی کو قتل کیا تھا تو اس کی رہائی مقتولوں کے ساتھ زیادتی ہے۔ اور اگر اسما نے قتل نہیں کیا تھا، استغاثہ جھوٹا تھا تو اسما اور اس کے ساتھیوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے۔ کسی نہ کسی کے 20 برس تو ضائع کیے گئے۔ اسما نواب اور اس کے ساتھ 20 برس سے قید دو افراد عدالت عظمیٰ کے حکم پر بری کردیے گئے۔ افسوسناک امر یہ ہے کہ ملزموں کی بریت استغاثہ ثابت نہ ہونے پر کی گئی ہے۔ تو پھر جن عدالتوں اور ججوں نے انہیں سزا سنائی تھی ان کو بھی طلب کیا جائے۔ اس پولیس پارٹی کو طلب کرکے سزا دی جائے کہ جس نے ان لوگوں کو گرفتار کرکے جھوٹا مقدمہ بنایا تھا۔ انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی تھی، اسی انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج کو بھی طلب کیا جائے اور عدالت عالیہ کے جس جج نے اس سزا کو برقرار رکھا اسے بھی طلب کرلیا جائے اور مسئلہ صرف طلب کرنے سے حل نہیں ہوگا دونوں میں سے کسی ایک فریق اور اس کے پورے خاندان کے 20 قیمتی برس ضائع کرنے والا صرف اس لیے بچ جائے کہ وہ جج تھا یا پولیس افسر۔ یہ سوال ہر زبان پر ہے کہ اگر یہ تہرا قتل اسما نواب اور اس کے ساتھیوں نے نہیں کیا تو پھر کس نے کیا۔ پاکستانی پولیس کے بس کی بات نہیں کہ وہ 20 برس بعد قاتلوں کا سراغ لگائے۔ یہ صلاحیت صرف راؤ انوار میں تھی اور وہ خود پولیس کے قبضے میں ہے۔ یہ واقعہ پاکستان کے پیچیدہ اور ظالمانہ عدالتی نظام کا ایک اور تکلیف دہ باب ہے۔
جسٹس کھوسہ نے فیصلہ سناتے ہوئے جو تبصرہ کیا ہے وہ پولیس اور عدالتی نظام دونوں پر بھرپور طمانچہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس ملزم تک تو پہنچ جاتی ہے لیکن جرم ثابت کرنے میں ناکام رہتی ہے۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ شواہد نہ ہونے پر رہا کردیا جائے تو کہا جاتا ہے کہ عدالتیں مجرموں کو چھوڑ دیتی ہیں۔ جناب کھوسہ صاحب تو جانتے ہوں گے کہ انسداد دہشت گردی عدالت اور عدالت عالیہ دونوں میں اسی عدالتی نظام سے جج گئے ہوں گے کیا ان میں یہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت نہیں کہ پولیس نے مقدمہ غلط بنایا ہے یا درست۔ یہ جج ہوتے ہیں کوئی عام آدمی نہیں، ایک طویل مرحلے سے گزر کر اس منصب پر پہنچتے ہیں۔ انہیں فوراً ہی پتا چل جانا چاہیے کہ کس مقدمے میں پولیس سچ بول رہی ہے اور کہاں جھوٹ بولا جارہا ہے۔ ہمارا پورا نظام محض الزام کی بنیاد پر چل رہا ہے جس نے پہلے تھانے پہنچ کر الزام لگادیا اس نے پہلے ایف آئی آر کٹوادی تو وہ فاتح اور سارا مقدمہ اس ایف آر کی بنیاد پر چلتا ہے۔ گاؤں دیہات میں تو چودھری صاحب نے اپنی بندوق سے کسی کو مارا اور ان کے بیٹے نے مقتول کے دوستوں اور بھائیوں کے خلاف اپنی گاڑی میں تھانے پہنچ کر پرچہ کٹوادیا۔ مظلوم جب بیل گاڑی پر لاش رکھ کر تھانے پہنچتے ہیں تو پولیس ایف آئی آر میں درج ناموں کی بنیاد پر مظلوموں کو قاتل قرار دے کر اندر کردیتی ہے۔ لیکن عدالت عظمیٰ کو اب اتنی قوت اور اختیار حاصل ہے کہ ایسے جھوٹے مقدمے درج کرانے والے پولیس افسر کو گرفتار کرنے کا حکم دے۔ زیر بحث مقدمے میں تو جو بھی زندہ ہے اسے طلب کرکے سزا دی جانی چاہیے۔ یہ معاملہ اسما نواب کا نہیں ہے بلکہ پاکستان کے لاکھوں لوگوں کا ہے جو ایسے ہی عدالتی نظام کے پنجے میں جکڑے ہوئے ہیں۔ ان لوگوں کو کوئی تو اس نظام سے نجات دلائے۔ اس پر گزشتہ ہفتے کا عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس کا بیان پھر سامنے آگیا کہ میں مجبوراً حکومت کے معاملات میں مداخلت کرتا ہوں۔ اس پر مزید تبصرے ہورہے ہیں۔ میاں نواز شریف نے تو جل کر کہا ہے کہ پارلیمنٹ کی ضرورت نہیں سارے کام چیف جسٹس کو دے دیے جائیں۔ طاہر القادری نے کہا کہ چیف جسٹس کو حکومت کے کام کرنے پڑے۔ یعنی حکومت کام نہیں کررہی تھی یا ٹھیک کام نہیں کررہی تھی تو چیف جسٹس کو مجبوراً یہ کام کرنے پڑے۔ اب ہم مجبور ہو کر یہ سوال اٹھارہے ہیں کہ پورے پاکستان میں کوئی مجبور ایسا بھی ہے جو عدالتی نظام میں مجبوراً مداخلت کرکے یہ کہے کہ کل سے میں فیصلے کروں گا۔ اسما نواب کیس تو یہی بتارہا ہے۔ 20 برس میں انصاف ملا تو بھی افسوسناک اور انصاف نہیں ملا فیصلہ غلط تو مزید افسوسناک۔ اس کی مزید وضاحت تو اطہر ہاشمی صاحب فرائیڈے اسپیشل میں کریں گے کہ شاید اسی کو مرے پہ سودرّے کہتے ہیں۔
جب ایک ادارہ دوسرے کے معاملات میں مجبوراً یا شوقیہ مداخلت کرے گا تو دوسرا بھی اس قسم کا شوق پورا کرسکتا ہے۔مداخلت کرنے والوں کو سوچنا چاہیے کہ وہ اپنے شوق یا مجبوری کی وجہ سے اپنے پورے ادارے کو بھی داؤ پر لگارہے ہیں۔ پاک فوج کے شوقین یا مجبور جرنیلوں کے چار اقدامات یا کم از کم تین اقدامات ایوب خان، جنرل ضیا اور جنرل پرویز کے معاملات میں تو تینوں نے مجبوراً اقدامات کیے تھے۔ لیکن ان اقدامات کے نتیجے میں مجبور پاکستانی قوم ہی تھی۔ اور اب تک اتنے مجبور ہیں کہ ایسے جبری یا مجبوری والے اقدام کو کوئی روک نہیں سکا۔ البتہ اب اس کے بارے میں ہلکی ہلکی آوازیں آنے لگی ہیں۔ کم از کم چیف جسٹس نے بھی کہا ہے کہ مارشل لا لگا تو گھر چلا جاؤں گا۔ ویسے مارشل لا آنے پر ججوں کو گھر ہی جانا ہوتا ہے۔ غالباً ان کا مطلب پی سی او پر حلف اٹھانے سے انکار تھا۔ اگر فوج کے بارے میں ہلکی ہلکی آواز آرہی ہے تو ہمارا سوال بھی سامنے آنا چاہیے کہ ہے کوئی مجبورا۔ جو عدالتی نظام کی اصلاح کرنے کا بیڑا اٹھائے۔