وزیر اعظم کا دورہ کابل

305

پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے افغانستان کا دورہ کر کے مثبت قدم اٹھایا ہے۔ کابل میں ان کا پرتباک خیر مقدم ہوا۔ افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ کے علاوہ مجاہد رہنما گلبدین حکمت یار اور افغانستان کی دیگر موثر شخصیات سے بھی ملاقات کی، جن میں استاد کریم خلیلی اور پیر سید حامد گیلانی بھی شامل ہیں۔ ان میں سے ہر ایک افغان عوام کے مختلف حلقوں میں اپنا اثر رکھتا ہے۔ وزیر اعظم کے اس دورے سے دونوں ممالک کے تعلقات میں برسوں سے پائی جانے والی کشیدگی اور الزامات کے تبادلے میں کمی آئے گی۔ چنانچہ شاہد خاقان عباسی اور افغان صدر اشرف غنی کے درمیان ملاقات کے بعد طرفین نے اس پر اتفاق کیا ہے کہ مخالفانہ بیان بازی سے گریز کیا جائے گا، دونوں ممالک اپنی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے نکالا جائے گا، علاقائی سلامتی کا مشترکہ ہدف حاصل کرنے میں ایک دوسرے کی مدد کی جائے گی۔ ان باتوں پر اگر ان کی روح کے مطابق عمل ہوجائے تو علاقائی سلامتی کا ہدف آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے۔ وزیر اعظم پاکستان نے افغان صدر کی دعوت پر کابل کا دورہ کیا ہے اور صدر اشرف غنی کودورہ پاکستان کی دعوت بھی دی ہے۔ اس میں کوئی شبہ تونہیں کہ پڑوسی ملک افغانستان برسوں سے امریکا کے شکنجے میں ہے اور وہاں کسی بھی قسم کی سیاسی، سماجی اور اقتصادی نقل و حرکت امریکا کی اجازت اور منظوری کے بغیر نہیں ہوسکتی چنانچہ یہ سوچنا غلط نہ ہوگا کہ اس ملاقات سے پہلے امریکا کی اجازت حاصل کرلی گئی ہوگی۔ صدر اشرف غنی کچھ عرصہ پہلے ہی اپنی بے بسی کا اظہار کرچکے ہیں کہ امریکا کی پشت پناہی کے بغیر ان کی حکومت تین دن نہیں چل سکتی۔ ادھر پاکستان کے حکمران بھی امریکی اشارے کے بغیر اس کے مقبوضہ علاقے میں قدم نہیں رکھ سکتے۔ افغان حکومت ہی نہیں خود امریکا بھی پاکستان پر افغانستان میں مداخلت کے الزامات لگاتا رہتا ہے۔ ان الزامات سے بھی ظاہر ہے کہ امریکا افغانستان کو اپنی کالونی ہی سمجھے بیٹھا ہے جیسے عراق اور لیبیا ہے۔ بہرحال اگر دونوں ممالک کے حکمران امریکی دباؤ سے آزاد ہو کر تعلقات میں بہتری لانے کی کوشش کریں تو صورت حال میں بہتری آسکتی ہے۔ جہاں تک ایک دوسرے خلاف اپنی سرزمین کے استعمال کا تعلق ہے تو دونوں ممالک ایک دوسرے پر الزامات عاید کرتے رہتے ہیں۔ پاکستان واضح کرچکا ہے کہ حقانی نیٹ ورک افغانستان کے اندر ہے جہاں سے وہ پاکستان کیخلاف کام کرتا ہے۔ امریکی اور افغان فورسز ملا فضل اللہ کو نہیں پکڑ سکیں جس سے گمان ہوتا ہے کہ اسے چھوٹ دی گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کے دورہ کابل ہی کے موقع پر افغان حکومت نے ایک بار پھر پاکستان پرالزام عاید کردیا کہ اس نے صوبہ کنڑ پر فضائی حملہ کیا جس سے بھاری مالی نقصان ہوا ہے۔ افغان وزارت خارجہ کے مطابق یہ حملہ گزشتہ بدھ کی شب ہوا جس میں پاکستانی طیاروں نے 4بم گرائے لیکن حیرت انگیز طور پر کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ اس وقت امریکی طیارے کیا کررہے تھے؟ شاید قندوز میں ایک مدرسے پر بمباری کر کے 200حافظ بچوں اور ان کے اساتذہ کے قتل عام کی پردہ پوشی کے لیے یہ الزام عاید کیا گیا ہے۔ شاید وزیر اعظم پاکستان نے صدر اشرف غنی یا چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ سے اس درندگی کا بھی ذکر کیا ہو یا ان معصوموں کی شہادت کے تذکرہ کو باہمی تعلقات میں کشیدگی کا سبب سمجھ کر کوئی بات نہ کی ہو۔ آخر عالمی ادارے بھی تو خاموش ہیں، امریکا کو کون ناراض کرے۔ جہاں تک ایک دوسرے کے خلاف اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے کا تعلق ہے تو پاکستان اس ضمن میں کئی اقدامات کرچکا ہے۔ اس کا اعتراف برطانوی چیف آف جنرل اسٹاف جنرل نکولس نے بھی کیاہے جنہوں نے گزشتہ جمعہ کو پاک فوج کے سالار جنرل جنجوعہ سے ملاقات کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ افغان سرحد پر باڑ لگانے اور دیگر اقدامات سے صورتحال بہتر ہوئی ہے۔ لیکن افغانستان کی طرف سے کیا کیا گیا ہے۔ وزیر اعظم کے دورہ کابل میں خیر سگالی کے طور پر 40ہزار ٹن گندم کا تحفہ دینے اور افغان مصنوعات پر اضافی ٹیکس ختم کرنے کا اعلان کیا گیا۔ افغان پناہ گزینوں کو ایک دن اپنے وطن واپس جانا ہے، لاکھوں کی تعداد میں یہ 1979 ء میں افغانستان پر سوویت یونین کے حملے کے بعد سے پاکستان میں ہیں۔ اس ملاقات میں ان کی واپسی کا طریقہ طے کرنے پر بھی بات ہوئی ہے۔ افغان پناہ گزین بستیوں کے بارے میں یہ شکایت ہے کہ یہاں افغانستان سے آنے والے دہشت گرد آسانی سے چھپ جاتے ہیں۔ دہشت گردی تو دونوں ہی ممالک کا سنگین مسئلہ ہے۔