ایک اور قاتل امریکی سفارتکار

297

مغرب کا ایک المیہ ہے جس کا خمیازہ مشرق اور تیسری دنیا کے غلام حکمرانوں کی وجہ سے ان ممالک کے عوام کو بھگتنا ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک میں بڑے سخت قوانین بنائے ہوئے ہیں اور ان میں سے بیشتر پر سختی سے عمل بھی ہوتا ہے۔ سڑک پر کچرا پھینکنا، راستے میں سگریٹ پھینک دینا ڈرائیونگ کے دوران موبائل فون کا استعمال وغیرہ۔ سیٹ بیلٹ باندھنا، سگنل کی پابندی یہ سب کچھ بہت اچھی طرح ان کا بچہ بچہ جانتا ہے لیکن تیسری دنیا کے ممالک میں آکر حکمران ذہنیت والے یہ لوگ تمام قوانین کو بھول جاتے ہیں۔ کچرا پھینکنا، موبائل فون سننا، سیٹ بیلٹ نہ باندھنا تو الگ مسئلہ ہے پاکستان میں امریکیوں کے ہاتھوں پاکستانیوں کا قتل بڑھتا جا رہا ہے۔ ایک امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس دو پاکستانیوں کو گولی مار کر قتل کر چکا اور پوری قوم کو پاکستانی حکمرانوں نے دھوکا دے کر اسے با عزت پاکستان سے بھگا دیا۔ اب ایک اور سفارتکار نے ایک اور نوجوان کو قتل کر دیا۔ اسلام آباد میں ٹریفک سگنل بند ہونے کے باوجود امریکی دفاعی اتاشی کرنل جوزف نے اپنی گاڑی تیز رفتاری سے آگے بڑھا دی اور دوسری جانب کھڑی ہوئی موٹر سائیکل پر چڑھا دی جس سے نوجوان عتیق موقع پر جاں بحق ہو گیا اور اس کا دوست راحیل شدید زخمی ہو گیا۔ امریکی سفارتکار کرنل جوزف بڑے آرام سے سفارتی استثنا کی آڑ میں اپنے گھر چلا گیا۔ پاکستانی شیر دل پولیس نے گاڑی کو تو تحویل میں لے لیا اور نشے کی حالت میں گاڑی چلانے والے کو سفارتی استثنا دے دیا۔ گویا سارا قصور گاڑی کا تھا۔ کیا اس گاڑی کو پھانسی دے کر عتیق کے گھر والوں کو معاوضہ دیا جائے گا۔ یہ بات بھی غور کرنے کے قابل ہے کسی ملک میں دوسرے ملک کا سفارتکار جرم کا ارتکاب کرے تو اسے پھر بھی کس حد تک سفارتی استثنا حاصل رہتا ہے۔ ویانا کنونشن میں تو یہ شق موجود ہے کہ جس ملک کے سفارتکار نے سنگین جرم کیا ہو اس ملک کی حکومت اس کا سفارتی استثنا واپس لے سکتی ہے۔ اگرچہ کچھ ممالک اس کے مخالف بھی ہیں۔ تا ہم امریکا کا معاملہ الگ ہے۔ امریکی انسانوں کے قتل کو جرم ہی نہیں سمجھتے خصوصاً یہ انسان اگر مسلمان ہوں تو ان کے نزدیک یہ کوئی جرم نہیں ہے۔ جس طرح کیمیاوی ہتھیاروں کا استعمال دنیا بھر میں جنگی جرائم میں شمار ہوتا ہے لیکن اسے امریکا یا اس کا کوئی حلیف استعمال کرے تو یہ جنگی حکمت عملی قرار پاتی ہے۔ بہرحال اسلام آباد میں ایک اور امریکی کے ہاتھوں ایک اور پاکستانی کی موت ہو گئی جس کے نتیجے میں پاکستان کی خود مختاری پر حرف آتا ہے۔ سفارتی آداب اور سفارتکاری کا تقاضا تو یہ ہے کہ جس ملک میں سفارتکار کی ذمے داری ہے وہاں کے قوانین کا احترام کرے۔ غیر قانونی کار ڈرائیونگ اور انسان کا قتل کسی طور بھی کسی استثنا کے زمرے میں نہیں آتا۔