شک کے صحرا میں اعتماد سازی کی کونپل؟

370

پاکستان اور افغانستان کے درمیان الزام و دشنام اور جنگ وجدل کے طویل دور کے بعد خوش گوار تعلقات کے آثار پیدا تو ہو رہے ہیں مگر یہ طویل سفر کا پہلا قدم ہے۔ ابھی اس راہ میں بے شمار مشکل مقام آئیں گے جہاں دونوں فریقوں کو مضبوط اعصاب کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اس امتحان میں کامیابی کے بعد ہی دونوں ملکوں کے تعلقات روایتی انداز میں بہتر ہوتے چلے جائیں گے۔ دونوں ملکوں کا سب سے بڑا مسئلہ اعتماد کا فقدان رہا ہے۔ بالخصوص افغان حکمران پاکستان کے معاملے میں ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘، جیسے شک کے اعلیٰ درجے پر فائز رہے ہیں۔ پاکستان کی طرف سے دوائے دردِ جگر کو زہر سمجھنے کے اس خوف کو بڑھانے میں بہت سی بیرونی قوتوں کا کردار رہا ہے۔ اب بھی تعلقات میں بہتری کی امیدکی وجوہات میں جہاں چین، روس اور ترکی جیسے ملکوں کی مسلسل کوششیں شامل ہیں وہیں امریکیوں کی یہ پختہ ہوتی ہوئی سوچ بھی ہے کہ پاکستان کو بائی پاس کر کے، ہاتھ باندھ کر اور دیوار سے لگا کر افغانستان میں امن کا قیام ممکن نہیں۔ ماضی میں امریکا نے یہ تمام کوششیں کر دیکھی ہیں مگر یہ سب اکارت گئیں۔ پاکستان کا افغان مسئلے کے حل سے باہر رکھ کر امن کا قیام ممکن تھا نہ یہ معجزہ ہوا۔
پاکستان کو باہر رکھ کر بھارت کو افغانستان کا گارڈ فادر بنا کر مسئلہ حل کرنے کی ہر تدبیر اُلٹی ہوگئی کیوں کہ بھارت افغان مسئلے کا فطری اسٹیک ہولڈر نہیں تھا امریکا اسے محض پاکستان کی ضد میں مصنوعی طریقے سے اسٹیک ہولڈر بنا کر پیش کر رہا تھا۔ افغان مسئلے کا افغانستان کے بعد اگر کوئی اسٹیک ہولڈر تھا تو وہ پاکستان تھا۔ افغانستان میں بدامنی ہوتی ہے تو پاکستان کا امن متاثر ہونے لگتا ہے افغانستان میں امن اور خوش حالی آتی ہے تو اس کے اثرات پاکستان پر پڑنا فطری ہوتا ہے۔ اس طرح امریکیوں نے فطرت کی ترتیب اور تقسیم کو اُلٹنے اور اس کے دھارے کو موڑنے کی کوشش کی۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا افغانستان ڈیڑھ عشرے سے تشدد در تشدد کی راہوں میں بھٹک رہا ہے۔ اب امریکا کو جزوی طور پر ہی سہی اس غلطی کا احسا س ہوگیا اور اس نے پاکستان کو بائی پاس کرنے کے بے سود تجربات کے بجائے پاکستان کو حل کا حصہ بنانے کی حکمت عملی نیم دلی ہی سے سہی مگر اپنا لی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے امریکی صدر ٹرمپ اب اگلی مدت صدارت کی منصوبہ بندی میں مگن ہوگئے ہیں اور اگلے صدارتی انتخاب میں افغانستان میں جنگ کے خاتمے کا تمغہ جسے وہ حسب ضرورت اور حسب ذائقہ ’’فتح‘‘ بنا کر بھی پیش کر سکتے ہیں سینے پر سجا کر میدان میں اُترنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ مشکل یہ آن پڑی ہے کہ یہ راہ بھی پاکستان سے ہو کر گزرتی ہے۔ یہ مجبوری فطری فریق کو مصنوعی طریقوں سے غیر فطری بنانے کی سوچ کا مزار ہے۔
افغان پناہ گزینوں کا لاکھوں کی تعداد میں پاکستان میں موجود ہونا اس ملک کے فطری فریق ہونے کا ثبوت تھا۔ خانہ جنگی اور تشدد کے کسی دور میں افغانوں کی اتنی بڑی تعداد کسی دوسرے ملک میں داخل نہیں ہوئی۔ اس تلخ زمینی حقیقت کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ اب کابل اور اسلام آباد کے درمیان اچھے تعلقات کی ہوا کا کوئی نہ کوئی جھونکا بھول بھٹک کر گزرنے لگا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا ایک روزہ دورۂ کابل اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ شاہد خاقان عباسی نے تو اس دورے کو پاک افغان تعلقات کا سنگ میل قرار دے کر شاید مبالغہ آرائی کی ہو مگر یہ اس راہ میں ایک بڑا قدم ضرور ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو اس دورے کی دعوت افغان صدر اشرف غنی نے دی تھی۔ دورے کے دوران وزیر اعظم پاکستان کو بھرپور پروٹوکول دیا گیا انہوں نے گارڈ آف آنر کا معائنہ بھی کیا۔ انہوں نے صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور حزب اسلامی کے قائد گل بدین حکمت یار سے بھی ملاقات کی۔ دونوں ملکوں کی قیادت نے مذاکرات میں مخالفانہ بیان بازی بند کرنے پر اتفاق بھی کیا۔ دونوں ممالک کی سرزمین ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے اور مسائل کا حل مذاکرات سے تلاش کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا۔ اجلاس میں پاکستان کی طرف سے افغان مصنوعات پر اضافی ڈیوٹی ختم کرنے اور چار سو ٹن گندم بطور تحفہ دینے کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ قیدیوں کے تبادلے اور پناہ گزینوں کی واپسی کے لیے میکنزم کی تیاری پر اتفاق کیا گیا۔ کچھ عرصہ قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے بھی کابل کا دورہ کیا تھا۔ حقیقت میں اسی دورے میں تعلقات کی گاڑی کو پٹڑی پر لانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ شاہد خاقان عباسی کا دورہ اسی پٹڑی پر سفر کا تسلسل ہے۔
افغانستان کو جوں جوں سوچ و عمل کی آزادی ملتی رہے گی افغان قیادت اسی رفتار سے حالات کو دوسروں کی عینک کے بجائے اپنے قومی اور ملکی مفاد کی خورد بین سے دیکھنا شروع کرے گی۔ افغان قیادت کو احساس ہوگا کہ ہمسائے کے ہمسائے سے دوستی اور تعلق کے ہزار فائدے ہوں گے مگر یہ ہمسائے سے دوستی اور تعلق کا نعم البدل نہیں ہو سکتی۔ شاہد خاقان عباسی کے دورے کے بعد ہی یہ نوید سننے کو ملی ہے کہ افغان قیادت نے سب کی جیت اور سب کے فائدے کے اصول کے تحت سی پیک کا حصہ بننے کے بارے میں سنجیدہ غور وفکر کا آغاز کر دیا ہے۔ اس حوالے چین، پاکستان اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے درمیان ایک اہم ملاقات ہو چکی ہے۔ بھارت اس خبر سے زیادہ خوش نہیں اس کا اندازہ بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی ایک رپورٹ سے بھی ملتا ہے جس میں افغانستان کی سی پیک میں شمولیت کی خبروں پر بھارتی تشویش اور خدشات کے سر اُٹھانے کی تصدیق کی گئی ہے۔ گویا کہ امریکا کے بعد چین کی ضرورت نے دو قریب ترین ہمسایوں کو حقیقت میں قریب لانے کا کام دیا ہے۔ دونوں ملکوں کے تعلقات میں خرابی اور اُلجھاؤ اس قدر زیادہ ہے کہ ایک رات میں سب کچھ بدل نہیں سکتا مگر درست سمت کا تعین ہونا آدھا سفر طے کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔ اسلام آباد اور کابل نے اگر درست سمت میں سفر کرنے پر اتفاق کر لیا ہے تو راہ کی رکاوٹوں اور بندشوں کے باوجود یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔ ابھی بداعتمادی کے لق ودق وصحرا میں اعتماد سازی کی ایک کونپل پھوٹ پڑی ہے جسے شک کی دھوپ اور تلخی کی ہواؤں سے بچانا ہوگا۔