جمہوریت کا حسن!

349

اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے مگر یہ حسن اس وقت ماند پڑ جاتا ہے جب اختلاف رائے کو تماشا بنادیا جائے۔ نان ایشوز مسائل کا پنڈورا باکس کھول دیا جائے۔ شاید ہماری قومی ڈاکٹرائن یہی ہے کہ نان ایشوز مسائل پر بے تحاشا بولا جائے۔ شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بنے تو انہیں کٹ پتلی وزیراعظم کہنا سبھی نے اپنا حق سمجھ لیا کیوں کہ موصوف نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا اظہار کیا تھا مگر ان کے بیانیے کو نظر انداز کیا جاسکتا تھا۔ عباسی صاحب نے میاں نواز شریف کو اپنا وزیراعظم قرار دے کر اپنی وفاداری کا اظہار کیا تھا، اپنے قائد کو وفاداری کا یقین دلانا ہماری سیاسی روایت ہی نہیں، سیاسی مجبوری بھی ہے ورنہ….. بلاول زرداری کو انگلی پکڑ کر چہل قدمی کرانے والے اس کی انگلی کے اشارے پر نہیں ناچتے۔ بیٹا کہنے والے جی حضور کی گردان نہ کرتے۔ وفاقی وزیر داخلہ احسن اقبال کا ارشاد ہے کہ ہمارے مینڈیٹ کو عزت نہ دی گئی تو افغانستان بھی ہم سے زیادہ ترقی یافتہ ملک بن جائے گا۔ افغانستان میں حامد کرزئی نے اپنے اقتدار کی مدت پوری کی اور اب اشرف غنی بھی اپنی مدت پوری کررہے ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کی بے خبری کو تجاہل عارفانہ ہی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ وہ اس حقیقت سے خوب واقف ہیں کہ آصف علی زرداری نے اپنے اقتدار کی مدت پوری کی اور اب نواز لیگ بھی اپنی مدت پوری کرنے والی ہے اور جہاں تک افغانستان کی ترقی کا تعلق ہے تو اس سے سبھی واقف ہیں۔ انہیں افغانستان کی نام نہاد ترقی کے بجائے بنگلادیش کی خوش حالی اور ترقی پر غور کرنا چاہیے جو ہم سے الگ ہو کر ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گامزن ہے۔ آخر کیوں اور اس کی وجوہ کیا ہیں؟۔
محترم احسن اقبال فرماتے ہیں کہ سیاست دان سراپا فریاد ہی ہوتا ہے وہ قوم کی فریاد کو آگے بڑھاتا ہے، شاید اسی لیے ملک پیچھے رہ گیا ہے۔ امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق حیران ہیں کہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کس کی فریاد لے کر چیف جسٹس پاکستان کے دربار میں پیش ہوئے تھے۔ کیوں کہ قوم تو انصاف کے لیے دھکے کھارہی ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے انصاف قوم کے لیے شجر ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔ میاں نواز شریف عدلیہ سے اتنے الرجک ہیں کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی کھوبیٹھے ہیں۔ محترم چیف جسٹس پاکستان نے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کے بارے میں کیے گئے سوال کے جواب میں فرمایا تھا کہ فریادی آیا تھا، ہم نے اس کی فریاد سن لی مگر میاں نواز شریف کو یہ جواب پسند نہیں آیا اور انہوں نے اسے وزیراعظم کی توہین سمجھ لیا اور اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا کہ فریادی کا لفظ استعمال نہ کرتے تو اچھا ہوتا۔ شاید سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے مشوروں نے فریادی اور سائل کا معنوی فرق نہیں سمجھایا سو، ہم سمجھا دیتے ہیں۔ فریادی کا مطلب داد خواہ، مدعی اور مستغیث ہے۔ اور سائل کے معنی ہیں سوال کرنے والا، بھیک مانگنے والا۔ درخواست کرنے والا اور عرض گزار۔ جج صاحبان کے سامنے پیش ہونے والا داد خواہ ہوتا ہے، انصاف کی بھیک مانگنے والا نہیں ہوتا۔ اس لیے اسے فریادی کہنا ہی مناسب ہے۔ کسی شاعر نے عدالتوں کے رویے کے بارے میں فریادی کی بڑے مناسب انداز میں ترجمانی کی ہے۔
بتِ ظالم نہیں سنتا کسی کی
غریبوں کا خدا داد رس ہے
اور یہ شعر سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی دلی کیفیت کا ترجمان ہے۔
اس وحشتِ دل نے مجھے دیوانہ بنایا
ورنہ، کبھی تم تک مری فریاد نہ آتی