صاحبو! کیا ہی محرومی ہے رجب کا مہینہ گزرا جارہا ہے اور ہم اس کی فضیلتوں کے ذکر سے محروم ہیں۔ رجب قمری اسلامی سال کا ساتواں مہینہ ہے۔ رجب ’’ترجیب‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی تعظیم اور تکریم کے ہیں۔ یہ ان چار مہینوں میں شامل ہے اللہ کی آخری کتاب جن سے عظمت اور احترام منسوب کرتی ہے۔ ذیقعدہ، ذی الحجہ، محرم، رجب۔ آقا سید المر سلین ؐکا فرمان ہے: ’’اللہ تعالیٰ نے شہروں کو منتخب کیا۔ اللہ تعالیٰ کا سب سے زیادہ محبوب شہر مکہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے زمانوں کا انتخاب کیا۔ اللہ ربّ العزت کے سب سے زیادہ محبوب عظمت والے چار مہینے ہیں‘‘۔ اس ماہ مقدس ہی میں معراج کا واقعہ پیش آیا۔ رسالت مآب ؐ روح اور جسم کے ساتھ جاگنے کی حالت میں ایک مرتبہ ایک ہی رات کے مختصر حصے میں بیت المقدس اور آسمانوں پر تشریف لے گئے تھے۔ ’’پاک ہے وہ جو لے گیا اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک جس کو گھیر رکھا ہے ہماری برکت نے تاکہ دکھائیں اس کو کچھ اپنی قدرت کے نمونے۔ وہی ہے سننے والا دیکھنے والا۔‘‘ (بنی اسرائیل) معراج میرے آقا ؐ کا ایک عظیم معجزہ ہے۔ اس شب کے واقعات اور مناظر احادیث کی کتب میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔ کفار کی حیرت کے جواب میں اس واقعے کی تصدیق میں ادنیٰ سا تامل بھی نہ کرنے کی وجہ ہی سے سیدنا ابوبکرؓ ، صدیق کے لقب سے سر فراز ہوئے۔ اسی سفر میں بیت المقدس اور بیت المعمور کی دید کے بعد آپ کے سامنے دو برتن لائے گئے۔ ایک میں شراب اور دوسرے میں دودھ تھا۔ آپ ؐ نے دودھ منتخب فرمایا۔ جبریل امین نے فرمایا کہ: ’’(الحمد للہ) یہی وہ فطرت ہے جس پر آپ ہیں اور (آپ کے اس عمل کی برکت سے) آپ کے امتی ہیں‘‘۔ دودھ حلال اور پاکیزہ جب کہ شراب دنیا میں خبیث، ناپاک اور گندہ ترین مشروب ہے۔ یہ واقعہ دودھ کی ترغیب اور شراب سے نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ اس واقعہ میں یہ رمز بھی پوشیدہ ہے کہ قائد کے اعمال اور اخلاق اس کے ماننے والوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔
ماہ رجب دو ہجری ہی میں تحویل قبلہ کا حکم نازل ہوا اور مسلمان بیت المقدس کے بجائے بیت اللہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے لگے۔ ماہ رجب 9 ہجری میں غزوہ تبوک کا واقعہ پیش آیا۔ آپ ؐ نے سخت موسم اور کم وسائل کے باوجود شام کی طرف پیش قدمی کی اور رومیوں کو پسپائی ہی میں عافیت سمجھ میں آئی۔ ماہ رجب 14ہجری میں سیدنا عمرؓ کے دور خلافت میں خالد بن ولیدؓ کی قیادت میں دمشق فتح ہوا۔ ماہ رجب 15ہجری میں سیدنا عمرؓکے ہی عہد میں جنگ یرموک کا واقعہ پیش آیا جس میں مسلمانوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئیں۔ ماہ رجب 84 ہجری میں روم کا ایک شہر مصیصہ عبیداللہ بن عبداللہ نے فتح کیا۔ ماہ رجب 141 ہجری میں عباسی خلیفہ منصور نے بغداد کی بنیاد رکھی اور اس کی تعمیر کرکے دارالخلافہ بنایا۔ ماہ رجب 150 میں امام ابوحنیفہ ؒ کا انتقال ہوا۔ آپ کا نام نعمان کنیت ابو حنیفہ اور لقب امام اعظم ہے۔ حنیفہ اسے کہتے ہیں جو سب سے ہٹ کر اللہ کا ہوجائے۔ آج دنیا کے اکثر حصے میں حنفی مسلک رائج ہے۔ یہ واضح رہے کہ امام یا مجتہد کی تقلید کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ اس کی بذات خود اتباع کی جارہی ہے یا اسے شارع کا درجہ دیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پیروی تو قرآن وسنت کی کی جارہی ہے لیکن قرآن وسنت کو سمجھنے کے لیے بحیثیت شارح قانون ان کی بیان کی ہوئی تشریح وتعبیر پر اعتماد کیا جارہا ہے۔ 583 ہجری ماہ رجب بمطابق 1187 عیسوی سلطان صلاح الدین ایوبی نے تقریباً ایک صدی بعد بیت المقدس کو صلیبیوں سے آزاد کرایا۔ فتح بیت المقدس کے بعد سلطان نے کسی قسم کا خون خرابہ نہیں کیا جس کا مظاہرہ پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر صلیبیوں نے کیا تھا۔
یہاں ماہ رجب کے حوالے سے تاریخ بیان کرنا مقصود نہیں کہنا یہ ہے کہ ماہ رجب کے ایک وہ ایام تھے جب مسلمان دنیا کو فتح کر رہے تھے۔ ہر جگہ ان کی عزت تھی۔ باطل قوتیں ان کے نام سے تھر تھراتی تھیں۔ تیرہ سو سال سے زاید عرصے تک مسلمان تاریخ پر اثر انداز اور غالب رہے۔ مسلمان جب کسی ملک میں داخل ہوتے تھے تو وہ وہاں اسلام کے ذریعے حکومت کرتے تھے۔ مقامی آبادی کا محض ذمی کی حیثیت اختیار کرلینے سے ان کے حقوق وواجبات مسلمانوں کی طرح ہوجاتے تھے۔ وہ علاقہ بھی اسلامی ریاست کے دوسرے علاقوں ہی کی طرح ہو جاتا تھا اور اسلامی ریاست کا حصہ بن جاتا تھا۔ کیوں کہ ساری ریاست میں حکومت کا نظام ایک ہی تھاچناں چہ مفتوح علاقوں کی آبادی قطعاً یہ محسوس نہ کرتی تھی کہ ان کے ملک کا استیصال کیا جارہا ہے یا انہیں نو آبادی بنادیا گیا ہے۔ اس پورے عمل میں کہیں بھی استیصال اور نو آبادیاتی طرز عمل کا شائبہ بھی نظر نہیں آتا تھا۔ چناں چہ یہ کوئی حیرت کی بات نہیں تھی کہ لوگ فوج در فوج عقیدہ اسلام کو قبول کرہے تھے۔
خلاصہ کلام یہ کہ ماہ رجب کے ایک وہ ایام تھے اور ایک یہ ایام ہیں جب دنیا بھر میں بے دریغ مسلمانوں کا خون بہایا جارہا ہے۔ تمام غیر مسلم قوتیں بھوکے بھیڑیوں کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹی پڑی ہیں۔ شام میں امریکا، روس، برطانیہ، اسرائیل اور بشار کی فوجیں مسلم آبادیوں کو برباد اور بے دریغ مسلمانوں کو قتل کرہی ہیں۔ فلسطین میں، غزہ میں یہودی خوب سیراب ہو کر مسلمانوں کا خون پی ر ہے ہیں۔ وہ بدھسٹ جو خون دیکھ کر بے ہوش ہوجایا کرتے تھے میانمر میں چن چن کر مسلمان بستیوں کو نذر آتش اور مسلمانوں کو آگ اور خون میں نہلا رہے ہیں۔ افغانستان میں عیسائی صلیبی افواج دس لاکھ سے زاید مسلمانوں کا قتل عام کرچکے ہیں۔ عراق میں محض پابندیوں کے زمانے میں پانچ لاکھ بچے دواؤں کی عدم دستیابی اور بیماریوں سے جان دے چکے تھے۔ عراق پر حملے کے بعد دس لاکھ سے زاید مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ بموں کی ماں سے لے کر وہ کون سا خوفناک اور تباہ کن اسلحہ اور بم ہیں جو مسلمان آبادیوں پر عراق اور افغانستان میں نہیں گرائے گئے۔ کشمیر میں بزدل ہندو کئی عشروں سے مسلمانوں کے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ مسلمانوں کی اس بربادی کو مہمیز اس وقت ملی جب 28 رجب بمطابق 3مارچ 1924 کو خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا۔ جب بچی کھچی اسلامی حکمرانی کا بھی خاتمہ کردیا گیا جب اس ڈھال کا خاتمہ کردیا گیا جس کے بارے میں میرے آقا ختم المرسلین ؐ نے فرمایا تھا: ’’خلیفہ ڈھال ہے جس کے پیچھے رہ کر لڑا جاتا ہے اور اس کے ذریعے تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‘‘
مسلم علاقوں پر آج کے حکمران ڈھال نہیں مغرب کے ایجنٹ ہیں جو حملہ آور غیر مسلم قوتوں کے ساتھ مل کر ہر وہ قدم اٹھا رہے ہیں جس سے زیادہ سے زیادہ مسلمانوں کو شکار کیا جاسکے، مسلم علاقوں کے حصے بخرے کیے جاسکے ہیں۔ ان حکمرانوں کی سازشوں کے نتیجے میں آج مسلمان دنیا بھر میں دم بخود ہیں۔ اپنے حواس کھو بیٹھے ہیں۔ انہیں اس وقت تک اپنے حکمرانوں کی غداریوں کی خبر ہی نہیں ہوتی جب تک کفار کے حملوں کے نتیجے میں ان کا خون نہ بہنے لگے۔ انہیں کھانے کے لیے کفر کی طاقتیں ان پر ٹوٹ نہ پڑیں۔ آج ہمیں پھر اسی ڈھال کی ضرورت ہے۔ اسلامی ریاست کی ضرورت ہے جو اللہ کے قوانین نا فذ کرے، اس کے نازل کردہ احکامات کو جاری وساری کرسکے، سرحدوں کی حفاظت کرسکے، جہاد کے لیے افواج کو تیار کرسکے اور ایک ایک مسلمان کی جان ومال کی حرمت کی امین ہو۔ ان کی حفاظت کرسکے۔