قال اللہ تعالیٰ و قال رسول اللہ 

310

کیا تم جانتے نہیں ہو کہ اللہ زمین اور آسمانوں کی سلطنت کا مالک ہے؟ جسے چاہے سزا دے اور جسے چاہے معاف کر دے، وہ ہر چیز کا اختیار رکھتا ہے۔اے پیغمبرؐ! تمہارے لیے باعث رنج نہ ہوں وہ لوگ جو کفر کی راہ میں بڑی تیز گامی دکھا رہے ہیں خواہ وہ اْن میں سے ہوں جو منہ سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے مگر دل اْن کے ایمان نہیں لائے، یا اْن میں سے ہوں جو یہودی بن گئے ہیں، جن کا حال یہ ہے کہ جھوٹ کے لیے کان لگاتے ہیں، اور دوسرے لوگوں کی خاطر، جو تمہارے پاس کبھی نہیں آئے، سن گن لیتے پھرتے ہیں، کتاب اللہ کے الفاظ کو اْن کا صحیح محل متعین ہونے کے باوجود اصل معنی سے پھیرتے ہیں، اور لوگوں سے کہتے ہیں کہ اگر تمہیں یہ حکم دیا جائے تو مانو نہیں تو نہ مانو جسے اللہ ہی نے فتنہ میں ڈالنے کا ارادہ کر لیا ہو تو اس کو اللہ کی گرفت سے بچانے کے لیے تم کچھ نہیں کرسکتے، یہ وہ لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پاک کرنا نہ چاہا، ان کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں سخت سزا۔ (سورۃ المائدہ:40تا41)
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوتے تو فرماتے۔ ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزا وار ہے جس نے ہمیں کھانے کو دیا۔ ہمیں پینے کو دیا اور ہمیں مسلمان بنایا۔ (ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ) اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریمؐ نے فرمایا: کھانا کھا کر (اللہ تعالیٰ کا) شکر ادا کرنے والا صابر روزہ دار کی طرح ہے۔ (ترمذی) ابن ماجہ اور دارمی نے اس روایت کو سنان بن سنہ سے اور انہوں نے اپنے باپ سے نقل کیا ہے۔ تشریح: ادائیگی شکر کا ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ کھانا شروع کرتے وقت بسم اللہ کہے اور کھانے سے فارغ ہونے کے بعد اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کرے اور صابر روزہ دار ہونے کا ادنیٰ درجہ یہ کہ اپنے آپ کو مفسدات صوم سے باز رکھے۔ (مشکوٰۃ)