ریمنڈ ڈیوس ازم؟ 

338

پاکستان کے لیے ریمنڈ ڈیوس ایک فرد نہیں ریمنڈ ڈیوس ازم کی طرح کا امریکا کا ایک رویہ اور کردار ہے۔ جو ابھی تک تو امریکا کی حد تک ہی محدود ہے مگر ہر واقعے پر مصلحت اور خاموشی اور نیم دلانہ ردعمل اسے ایک رسم وریت بنا سکتا ہے۔ ریمنڈ ڈیوس ازم کے تحت کوئی بھی امریکی اہلکار پاکستان کی سڑکوں پر چلتے پھرتے کسی بھی شہری کو کچل ڈالتا ہے پھر سفارتی استثناء کا پرزہ لہراتے اور پاکستانی قوانین اور ویانا کنونشن کا مذاق اُڑاتے ہوئے بھاگ نکلتا ہے۔ یہ تو خیریت گزری کہ بھارتی را کا جاسوس کلبھوشن یادیو ریمنڈ ڈیوس نہ بن سکا۔ ریمنڈ ڈیوس ازم کے تحت ریاست، قانون اور قانون وریاست کے محافظ سب اس مجرم کو بچ نکلنے میں معاونت فراہم کرتے رہے ہیں، عدلیہ بھی قانون کی عملداری قائم کرنے کے بجائے ’’اگر مگر‘‘ کا سہارا لے کر سب کی فیس سیونگ کے مواقع پیدا کرتی ہے۔
ریمنڈ ڈیوس نامی امریکی کمانڈو جو کنٹریکٹر کے روپ میں اسلام آباد میں تھا لاہور میں دو پاکستانیوں کو قتل کرنے کے بعد قانون کے ہاتھوں سے بچ نکلا ۔ جیل میں پہنچتے ہی اس شخص کی جیب سے سفارتی استثناء کی پرچی برآمد ہوئی اور امریکا کی پوری ریاست اس کے لیے ایک ایسے حق کا دفاع کررہی تھی جو اسے حاصل ہی نہیں تھا۔ وقت نے ثابت کیا تھا کہ وہ کنٹریکٹر کے پردے میں سی آئی اے کا ایک اہم اہلکار تھا جو ایک مخصوص مشن پر مامور تھا۔ اس قاتل کو بچانے کے لیے اسلامی روایات اور دیت کے اصول کا غلط استعمال کیا گیا۔ اسلامی قانون کے مطابق دیت کی رقم قاتل کے ورثاء ادا کرتے ہیں مگر اس کیس میں دیت کی رقم کس نے ادا کی؟ آج تک واضح نہ ہو سکا۔ بس لواحقین کو زبردستی رقم تھما کر خاموش کر دیا گیا اور ان سے رضا مندی لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی گئی۔ بعد میں اسی شخص نے اپنے اس کیس کے بارے میں ’’دی کنٹریکٹر‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی لکھی جس کا اردو ترجمہ کتابی شکل میں ’’کرائے کا سپاہی‘‘ کے عنوان سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔ کئی سال بعد اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کے کرنل جوزف نامی ملٹری اتاشی نے ایک اور معصوم پاکستانی کو کچل ڈالا۔ پولیس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے ملٹری اتاشی کے خلاف مقدمہ درج کرکے اسے تھانے میں بند کر دیا مگر تھوڑی دیر بعد وہ سفارتی استثناء کا کاغذ لہراتا ہوا اُڑن چھو ہوگیا۔ سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ نے امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل کو طلب کرکے اس واقعے پر احتجاج کیا اور مقدمے میں تعاون کرنے کا کہا۔ امریکی سفیر نے واقعے پر اظہار افسوس کرتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا ہے۔ بتایا گیا کہ امریکی اہلکار نشے میں دھت ہو کر گاڑی چلا رہا تھا اور اس نے سگنل توڑتے ہوئے موٹر سائیکل سوار کو کچل ڈالا جب کہ دوسرا نوجوان زخمی ہو کر اسپتال میں جا پڑا ہے جس کی سی سی ٹی فوٹیج بھی موجود ہے۔ ہلاک ہونے والا تئیس سالہ نوجوان مقامی ہوٹل میں ویٹر تھا اور اس کے لواحقین نے چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے مداخلت کرتے ہوئے انصاف دلانے کا مطالبہ کیا ہے۔
امریکی سفیر اس کیس میں تعاون کی یقین دہانی تو کراچکے مگر اس بار بھی امریکا کا رویہ ریمنڈ ڈیوس کیس سے مختلف نہیں۔ جس کا ثبوت یہ خبریں ہیں کہ امریکی ملٹری اتاشی ایک غیر ملکی ائر لائن کے ذریعے دوحہ کے لیے اُڑان بھرنے کی کوشش میں ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کے حالیہ دورہ امریکا میں جس طرح ان کی جامہ تلاشی لی گئی اس کے بعد تو پاکستان اور امریکا کے معاملات میں قانونی تقاضوں کا پرچم مزید بلند ہونا چاہیے۔ ایک ملک کا وزیر اعظم اگر قانون کے نزدیک کسی رو رعایت کا مستحق نہیں تو دوسرے ملک کا معمولی سفارتی کارندہ کس طرح قانون سے بالاتر ہو سکتا ہے۔ اس تفاوت کی سوائے اس کے کوئی اور وجہ سامنے نہیں آتی کہ ایک ملک اپنے قانون کو مقدس اور مقدم سمجھتا ہے اور دوسرے ملک کا قانون محض کاغذ کا ایک ٹکڑا قرار پاتا ہے۔ قوموں اور ملکوں کے معاملات میں یہ رویے چل تو جاتے ہیں مگر یہ ذہنوں پر اچھے اثرات مرتب نہیں کرتے۔ اس لیے اسلام آباد میں ایک پاکستانی شہری کی موت محض ایک امریکی اہلکار کی غفلت اور ایک شہری کی موت کا معاملہ نہیں بلکہ پاکستان کے قانو ن کی عملداری اور احترام کا سوال بھی ہے۔ اس معاملے کو مٹی پاؤ اصول کی نذر کرنے کے بجائے ویانا کنونشن اور پاکستان کے قوانین کے تحت حل کیا جانا چاہیے تاکہ اب پھر کسی ریمنڈ ڈیوس کو پاکستان کے قانون کا مذاق اُڑاتے ہوئے وطن واپس جا کر ذوق تصنیف کی تسکین کرنے کا موقع نہ ملے۔
چند روز پہلے چینی باشندوں کی طرف سے اپنے ہی محافظ پاکستانی پولیس اہلکاروں پر حملہ اور پاکستانی پرچم کی توہین کی تصویریں اور خبریں بھی آئی تھیں۔ ان چینی کارکنوں کو ملکی قوانین کے تحت ملک بدر کردیا گیا۔ عزت اور انا کی قیمت پر فیصلوں نے پاکستان کو ’’بنانا ری پبلک‘‘ جیسی چھوئی موئی ریاست بنا رکھا ہے۔ اب یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے اور ملکی قوانین کا احترام اپنوں اور غیروں کے لیے مقدم اور لازم بنانا چاہیے۔ ہم ایک جزیرے میں قید نہیں رہ سکتے بین الاقوامی تعلقات میں قوموں اور ملکوں کے درمیان ایسے مسائل پیدا ہوتے ہیں مگر ان واقعات کو قوانین اور قواعد کے تحت حل کرنے میں نرمی برتنے کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو ’’ریمنڈ ڈیوس ازم‘‘ پوری طرح پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے گا۔ آج امریکی شہری ہے تو کل کوئی اور اس طرح کی وارداتیں کرکے دھونس سے کام لے کر قانون کے ہاتھ سے پھسل جائے گا اور یہ سلسلہ کہیں رکنے میں نہیں آئے گا۔