ملکی سیاست میں جو کچھ ہورہا ہے وہ ہمارے جمہوری نظام کی روایت رہی ہے۔ عام انتخابات کے قریب اور حکومتی دور ختم ہونے کے نزدیک سرکاری جماعت سے ان کے ارکان کا منحرف ہونا کوئی انوکھی بات نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کی ساکھ خراب ہونے کی صورت میں بھی ایسا ہی کچھ ہوتا ہے جیسا ایم کیو ایم کے ساتھ چل رہا ہے۔ حکمراں جماعت مسلم لیگ نواز اپنے ہی کرتوتوں کے طفیل ٹوٹ رہی ہے۔ ایسی جماعتوں کو ٹوٹ ہی جانا چاہیے جن کی قیادت کرپٹ ہو یا جن پر کرپشن کے الزامات ہوں۔ راقم نے روزنامہ جسارت کی 7 اپریل کی اشاعت میں تجزیاتی خبر میں یہ لکھا تھا کہ: ’’ایسا لگتا ہے کہ لیگی رہنما اپنے نااہل صدر اور سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ سے علیحدگی کے بعد سے خود کو سنبھال نہیں پارہے اور نواز شریف کی نااہلی کے صدمے سے تاحال دوچار ہیں تب ہی وہ اپنے درمیان موجود پارٹی رہنماؤں کو روکنے کی بھی کوشش نہیں کر رہے۔ یہ محسوس کیا جارہا ہے کہ مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی سے ناراض ہونے والی اہم شخصیات پاکستان تحریک انصاف کو ’’پیاری‘‘ ہو رہی ہیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم لیگ نواز ٹوٹ رہی ہے بلکہ تیزی سے ملکی سیاست سے باہر ہو رہی ہے‘‘۔
میرا یہ تجزیہ سو فی صد درست ثابت ہوا۔ میرا یہ بھی کہنا تھا کہ: ’’ایسا لگتا ہے کہ اب مسلم لیگ میں رہ جانے والے رہنما شریف خاندان سے نالاں ہوکر جلد ہی مسلم لیگ کا ایک نیا گروپ بنانے غور شروع کرچکے ہیں۔ یہ نیا گروپ چودھری نثار کی سرکردگی میں قائم ہو سکتا ہے‘‘۔
تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نواز شریف کی اپنی ذات سے منسوب باتوں نے ان کی سیاست کی قلعی کھول دی ہے۔ لوگ یقین کرنے لگے ہیں کہ مسلم لیگ صرف خاندانی پارٹی تھی خاندان پر لگنے والے کرپشن کے الزامات کی وجہ سے وہ اب ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوچکی ہے مگر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کے غیر مستحکم ہونے سے زیادہ نواز شریف کو اپنی اور اپنے خاندان کی فکر ہے۔ تمام صورت حال کا جائزہ لینے سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ اس سال انتخابات وقت پر نہ ہونے کی صورت میں مسلم لیگ کی کامیابی تو کجا ملکی سیاست میں نمبر دو پوزیشن پر آنے کے امکانات بھی نہیں ہوں گے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ رواں سال ایم کیو ایم کے بعد اب مسلم لیگ نواز بھی ٹوٹ رہی ہے۔ میرے تجزیے کے عین مطابق 9 اپریل کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے مزید 6 ارکان قومی اسمبلی اور 2 ارکان صوبائی اسمبلی نے عام انتخابات سے قبل پارٹی سے انحراف کرتے ہوئے قومی اسمبلی کی نشست سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ تاہم یہ ارکان مسلم لیگ کا ایک اور گروپ بنانے کے بجائے صوبہ جنوبی پنجاب قائم کرنے کے لیے ایک ہوئے ہیں۔ مسلم لیگ نواز سے منحرف رکن خسرو بختیار کے ساتھ پریس کانفرنس کے دوران ان تمام ارکان نے اپنی نشستوں سے استعفا دیتے ہوئے جنوبی پنجاب صوبہ محاذ بنانے کا بھی اعلان کیا۔ جنوبی پنجاب صوبہ محاذ کی قیادت میر بلخ شیر مزاری کریں گے، دیگر منحرف ارکان اس کا حصہ ہوں گے۔ مستعفی ارکان قومی اسمبلی میں خسرو بختیار، اصغر علی شاہ، طاہر اقبال چودھری، طاہر بشیر چیمہ، رانا قاسم نون، باسط بخاری جب کہ صوبائی اسمبلی سے سمیرا خان اور نصراللہ دریشک شامل ہیں۔
اس موقع پر صحافیوں سے بات چیت میں خسرو بختیار کا کہنا تھا کہ آنے والے چند دنوں میں مزید ارکان اسمبلی اس کارواں میں شامل ہوں گے اور کئی ارکان پنجاب اسمبلی کے باہر کھڑے ہوکر استعفا دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پنجاب میں لوڈشیڈنگ، صاف پانی اور سڑکوں کا مسئلہ ہے لیکن ہم اورنج ٹرین پر نئے ائر کنڈیشنز لگا رہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ 1973 کا آئین ہر شخص کو مساوی حقوق دیتا ہے لیکن یہاں عوام کو بنیادی سہولت تک میسر نہیں ہے۔ جنوبی پنجاب کے حوالے سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں غربت 27 فی صد جبکہ جنوبی پنجاب میں 51 فی صد ہے۔ اسی جگہ سے مختلف وزیر اعظم اور وزرا آتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت اور ایران میں صوبوں کی تعداد بڑھ رہی لیکن پاکستان میں ایسا نہیں ہورہا لہٰذا ہم اعلان کرتے ہیں کہ ہمارا ایک ہی سیاسی نکتہ ہے اور وہ نئے صوبے کا قیام۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ صرف پنجاب ہی میں نہیں بلکہ سندھ میں بھی جنوبی سندھ صوبہ یا کراچی صوبہ کی ضرورت ہے۔ تاج محمد لنگا اپنی پارٹی ’’سرائیکی پارٹی‘‘ کے پلیٹ فارم سے سرائیکی صوبہ بنانے کی تحریک چلاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ سرائیکی صوبہ نہیں بن سکا اس لیے کہ پنجاب کو تقسیم کرنے کی مہم کا پنجاب کی بڑی جماعت حمایتی نہیں تھی۔ جس طرح پنجاب کے مفاد پرست سیاست دان وہاں نئے صوبے کے قیام کی بات ہی نہیں کرنا چاہتے اسی طرح سندھ سے تعلق رکھنے والے قوم پرست صوبہ سندھ میں نئے صوبے کے قیام کی آواز کو سندھ کی تقسیم قرار دیکر برداشت نہ کرنے کی دھمکی دیا کرتے ہیں۔ حالاں کہ آبادی کے تناسب اور ملک کی ترقی کے لیے نئے صوبوں کا قیام ناگزیر ہے۔ نئے صوبے سیاست دانوں کی اجارہ داری ختم کرنے کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ جب کہ اس سے عام افراد کی زندگی میں بھی مثبت تبدیلی آتی ہے۔
بات ہو رہی تھی عام انتخابات کا وقت قریب آنے کی۔ مگر یہاں ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی لوگوں کو شک ہے کہ انتخابات کا انعقاد تعطل کا شکار ہوجائے گا۔ آئین کے تحت موجودہ اسمبلی کی منظوری سے اسمبلیوں کی مدت میں چھ ماہ کی توسیع کی جاسکتی ہے۔ خیال ہے کہ اگر ایسا ہوا تو تمام سیاسی جماعتیں اس فیصلے کی تائید کریں گی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ چھ ماہ میں بھی وہ نتائج حاصل نہیں کیے جاسکے جس کے تحت انتخابات ملتوی کیے جائیں گے تو آگے کیا ہوگا؟
میرا خیال یہ ہے کہ انتخابات اپنے وقت پر ہی ہونا چاہئیں۔ ورنہ ملک میں ایک نئی روایت قائم ہوجائے گی۔ ویسے بھی جو کام حکومتوں نے اپنے دور میں نہیں کیے سزا کے طور پر انہیں قبل از وقت فارغ کرنا ہی بہتر ہوگا۔ اگر ملک میں حلقہ بندیوں کے معاملات کو حکومت درست نہیں کراسکی تو اسے مزید ذمے داریاں اور وقت دینا نامناسب ہوگا۔ اگر حلقہ بندی کے معاملے کو سامنے رکھ کر انتخابات ملتوی کیے گئے تو بات نئے صوبوں کے قیام تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ کہیں کسی طرف سے ایسا ہی عمل کرنے کا اشارہ نہیں دیدیا گیا ؟؟۔