عام انتخابات کی تاریخ کا اگرچہ تاحال اعلان نہیں ہوسکا بلکہ اس کا انعقاد بھی سوال بنا ہوا ہے مگر تمام سیاسی جماعتیں انتخابات کی زور شور سے تیاریوں میں مصروف ہوگئی ہیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں کراچی کی سیاست 24 سال بعد تبدیل ہونے کا امکان ہے۔ خیال ہے کہ ان انتخابات کے نتیجے میں سب سے زیادہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو نقصان پہنچے گا۔ سچ تو ہے کہ ایم کیو ایم ابھی تک ٹوٹ پھوٹ ہی کا شکار ہے لیکن اصل صورت حال عام انتخابات کے نتائج سے سامنے آئے گی کیوں کہ ایم کیو ایم ٹوٹنے کے بعد اس کے ووٹر کس کے ساتھ ہیں یہ الیکشن کے نتائج سے پتا چلے گا۔ متحدہ قومی موومنٹ کے فعال رہنے کے دوران خصوصی طور پر کراچی اور کراچی کے شہریوں نے جو درد کم و بیش 32 سال تک سہے وہ بھلائے نہیں جاسکتے۔ آج شہر مسائلستان بنا ہوا ہے اس کی وجہ بھی ایم کیو ایم اور ایم کیو ایم سے ماضی اور حال وابستہ رہنے والے افراد ہی تو ہیں۔
آج جب ملک کی اسٹیبلشمنٹ اور حساس اداروں نے ایم کیو ایم کے بانی الطاف حسین کے خلاف گھیرا تنگ کیا تو چالاک ’’حق پرستوں‘‘ نے راتوں رات اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ ان میں بعض انتہائی ذہین نکلے وہ اس وقت تک دبئی میں بحریہ ٹاؤن کے پروجیکٹ ڈائریکٹر بنے رہے اور خود کو نہ صرف ایم کیو ایم بلکہ سیاست سے بھی لاتعلق رکھا۔ لیکن جیسے ہی انہیں یقین ہوا کہ اب ایم کیو ایم مزید مشکلات میں آجائے گی وہ دبئی سے اچانک ہی کراچی پہنچ گئے اور پھر رونا دھونا مچاکر اپنے آپ کو مہاجروں کا ہمدرد ظاہر کرنے لگے۔ لیکن مہاجروں سمیت پورے ملک کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہی لوگ ہیں جو ایم کیو ایم اور اس کے بانی الطاف حسین کے چہیتے رہے ہیں، جو ایک اشارے پر ملک کے سب سے بڑے شہر کو خوف میں مبتلا کردیا کرتے تھے۔
3 مارچ 2016 کو مصطفی کمال اور انیس احمد قائم خانی دبئی سے کراچی آئے۔ پھر محض 18 دن بعد پاک سر زمین پارٹی قائم کرلی اور الطاف کے خلاف وہی باتیں کرنے اور الزامات لگانے لگے جو مہاجر قومی موومنٹ کے چیئرمین آفاق احمد 1992 سے لگاتے رہے۔ پاک سرزمین پارٹی کے مصطفی کمال کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ دیگر سیاستدانوں کی طرح اپنے آپ کو وہ بھی ’’فرشتہ‘‘ ظاہر کریں۔ ان کا یقین کی حد تک خیال ہے کہ لوگ سب کچھ بھول جاتے ہیں۔ لیکن انہیں یہ بھی یقین کرلینا چاہیے کہ قوم انہیں تو اچھی طرح ’’پہنچانتی اور جانتی‘‘ بھی ہے۔ ان کا بنایا ہوا لیاقت آباد انڈر پاس جو ہر بارش میں بھر جاتا ہے وہ بھی انہیں بھولنے نہیں دیتا۔ قوم یہ دیکھ رہی ہے کہ مہاجروں کو دیگر قوم کے ساتھ کھڑا کرنے کی مثبت کوشش کے ساتھ مصطفی کمال کی یہ کوشش ہے کہ اسی ایم کیو ایم کی ’’اسٹریٹ پاور‘‘ اور رہنماؤں کو اپنے ساتھ ملا لیں تاکہ کراچی کا کنٹرول ان کے اور ان کے ساتھی کے ہاتھ میں آجائے۔ 3 مارچ 2016 سے آج تک مصطفی کمال دراصل صرف اسی ایک نکاتی ایجنڈے سے آگے بڑھتے ہوئے نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان کے پاس الطاف حسین اور ان کی بنائی ہوئی متحدہ قومی موومنٹ کی برائی اور اس کے خاتمے کے سوا کوئی اور ایجنڈا نہیں ہے۔ اگر ہم یہ تصور کرلیں کہ ایم کیوایم لندن اور پاکستان سے جڑے ہوئے سب ہی لوگ پی ایس پی میں شامل ہوگئے تو کیا ہوگا؟
مصطفی کمال اپنے مشن میں کامیاب ہوجائیں گے؟
ان کی سیاست اور علیحدہ پارٹی بنانے کا مقصد پورا ہوجائے گا؟
میرا خیال ہے ایسا اگر ہوگیا تو پاک سرزمین پارٹی وہی متحدہ قومی موومنٹ بن جائے گی جس سے کراچی کے عام لوگ اور ملک کی خاص قوتیں ایک عرصے تک پریشان رہی ہیں۔ چوں کہ مجھے پاک سر زمین پارٹی سے زیادہ ملک کی ان اہم قوتوں پر یقین ہے کہ وہ اب دوبارہ کوئی ایسی غلطی نہیں کریں گی کہ ’’بظاہر گلیہری نظر آنے والا جانور سانپ بن جائے‘‘۔
پاک سرزمین پارٹی میں اب تک تو کچھ نیا ہوا ہی نہیں وہ تو صرف ایم کیو ایم کی ’’پتنگیں‘‘ کاٹنے پر جشن مناتی ہے۔ پتنگیں بھی وہ جو ٹوٹی ہوئی ڈور کی وجہ سے کسی بھی جگہ گرنے والی ہوتی ہیں۔ اللہ کرے کہ مصطفی کمال سے کوئی ایک ’’کمال‘‘ ہوجائے۔ مصطفی کمال اور ان کی پاک سر زمین پارٹی سمیت ایم کیو ایم کے تمام ہی دھڑوں یا اس کی باقیات کا کمال تو یہ ہوگا کہ وہ بغیر اسلحہ اور غیر قانونی طاقت کے لوگوں کی حقیقی جماعت بن جائے اور سب کی توجہ حاصل کرلے۔
پاک سر زمین کو مخالفین لانڈری کا نام دے رہے ہیں تو یہ مصطفی کمال اور ان کے ساتھیوں کی تعریف نہیں سخت تنقید ہے کیوں کہ ’’لانڈری‘‘ کا تعلق ’’دھوبیوں‘‘ سے ہوتا ہے۔ یقین ہے کہ پاک سرزمین کے رہنما اپنے آپ کو کبھی بھی دھوبی کہلوانے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔ اس لیے انہیں مشورہ دیا جاتا ہے کہ وہ ایسے کام کریں ہی نہیں جن سے ان پر ’’لانڈری‘‘ چلانے والے ہونے کا شبہ ہو۔ پاک سرزمین پارٹی کے بارے میں یہ تاثر بھی ہے کہ وہ ریاست کے اہم اداروں سے تعلق رکھنے والے سرکاری لوگوں کی بنائی ہوئی پارٹی ہے۔ خیال ہے کہ یہ بات ان لوگوں کے لیے بھی ناگوار ہوگی۔ کیوں کہ ملک کے اہم ادارے کبھی بھی ایسا نہیں چاہیں گے کہ ان کی ساکھ سیاسی پارٹی کے لیے خراب ہو۔ ویسے بھی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث رئیس مما اور حماد صدیقی کی دبئی سے گرفتاری سے بھی یقین ہوتا ہے کہ ملکی ادارے قانون کے مطابق کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں اور وہ کسی ٹارگٹ کلر کو آزاد رہنے نہیں دیں گے۔ پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین مصطفی کمال چوں کہ حماد صدیقی کے بارے میں مثبت بیانات دیتے رہے ہیں اس لیے ان کی حماد سے محبت عیاں ہے۔ یہ پیار کیوں ہے اس کی وضاحت تو مصطفی کمال ہی کریں گے۔ میں تو اس بنگلے کے بارے میں بھی کچھ نہیں لکھنا چاہتا جہاں ان دنوں پی ایس پی کا دفتر ہے کیوں کہ ویسے بھی سنی سنائی باتوں کا ذکر مناسب نہیں ہوتا۔
بہرحال مصطفی کمال اور ان کی پارٹی کو مبارک ہو کہ ’’گیارہ دنوں میں 5 ایم پی ایز اور 4ا یم این ایز ان کے پاس آچکے‘‘۔ اس خوشی میں چیئرمین پی ایس پی مصطفی کمال نے ایم کیوایم بہادرآباد اور پی آئی بی کو بھی پاک سرزمین پارٹی میں شمولیت کی دعوت دی۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے لوگوں کی خدمت کرنے کا اگر کوئی پلیٹ فارم ہے تو وہ پی ایس پی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ مصطفی بھائی سچ کہہ رہے ہوں مگر پیارے مصطفی بھائی یہ بھی تو بتادیجیے کہ: ’’نیب نے آپ کو کیوں بلایا تھا اور ہاں آپ کی نظامت اعلیٰ شہری حکومت کراچی کے دور میں فیڈرل بی ایریا میں واقع المرکز اسلامی کو سینما ہال بنانے کی منظوری کس کم بخت نے کس کے حکم پر کیوں دی تھی۔ کمال ہے کہ آپ کے دور میں دینی سینٹر سینما میں تبدیل ہوگیا اور آپ خاموش رہے کیوں؟؟۔ چلیے یہ تو بتا ہی دیں کہ محمودآباد ٹریٹمنٹ پلانٹ کی اراضی پر لائینز ایریا کے متاثرین کو کس نے قبضہ دلایا تھا۔