بیانیہ اور ڈاکٹرائن کا جھگڑا کیوں؟

562

بیانیہ انگریزی لفظ Narrative کا اردو ترجمہ ہے جب کہ ڈاکٹرئن (Doctrine) انگریزی لفظ ہے جس کا کوئی اردو متبادل سامنے نہیں آیا۔ ذرائع ابلاغ ہی کسی لفظ کو اُچھالتے اور اسے پڑھے لکھے طبقے میں مقبول بناتے ہیں۔ بیانیہ کا لفظ لغت میں پہلے سے موجود تھا لیکن اس کا ہماری سیاسی و سماجی زندگی میں کوئی تذکرہ نہ تھا، اس کا چرچا اس وقت ہوا جب میاں نواز شریف پاناما کیس میں نااہل ہو کر سڑکوں پر آگئے اور ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی فریاد کرنے لگے۔ وہ کوئی عام آدمی نہ تھے ملک کے تین بار وزیراعظم رہ چکے تھے اگرچہ وہ پہلے بھی دو مرتبہ اقتدار سے نکالے گئے تھے لیکن نکالنے والوں نے انہیں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان کرنے کا موقع ہی نہیں دیا تھا۔ ان کی جان کے لالے پڑ گئے تھے اور انہیں اپنی جان بچانے کے لیے بیرون ملک بھاگنا پڑا تھا۔ اب کی دفعہ عدلیہ نے انہیں اقتدار سے بے دخل کیا تھا جس کے پاس صرف قانون کی طاقت ہوتی ہے۔ قانون کی طاقت کے آگے سب کو سر تسلیم خم کرنا پڑتا ہے، اگر کوئی فرد یا گروہ یا جماعت قانون کی طاقت کے آگے سر نہ جھکائے اور عدالتی فیصلے کو ماننے سے انکار کردے تو عدلیہ بندوق برداروں کی مدد سے فیصلہ منوانے کا اختیار رکھتی ہے۔ میاں نواز شریف اس حقیقت کو جانتے تھے اس لیے وہ عدالتی فیصلہ ملتے ہی ایوانِ وزیراعظم سے تو باہر آگئے لیکن باہر نکلتے ہی وہ شور مچانے لگے کہ ’’مجھے کیوں نکالا‘‘۔ وہ اسلام آباد سے جاتی امرا کے لیے جی ٹی روڈ سے لاہور روانہ ہوئے تو جگہ جگہ جلسے کرکے لوگوں کو اپنی فریاد سنانے لگے۔ الیکٹرونک اور پرنٹ میڈیا میں ان جلسوں کی آنکھوں دیکھی اور کانوں سنی روداد ٹیلی کاسٹ اور شائع ہوئی تو ان کے حامی اخبار نویسوں اور کالم نگاروں نے میاں صاحب کی اس فریاد کو ان کا ’’بیانیہ‘‘ قرار دے دیا اور اس پر حاشیہ آرائی کرنے لگے۔ ٹی وی چینلوں پر بھی ان کے بیانیے کی رونق لگ گئی۔ جب میاں صاحب کو اندازہ ہوا کہ ان کی فریاد اور چیخ و پکار نے بیانیے کا روپ دھار لیا ہے تو انہوں نے ایک اور جست بھری اور خود کو نظریاتی آدمی قرار دینے لگے۔ ان کا نظریہ کیا ہے؟ یہ راز تو آج تک نہ کھل سکا البتہ یہ ضرور ہوا کہ ان کے بیانیے کو سرخاب کے پَر لگ گئے۔
ابھی بیانیہ کا چرچا جاری تھا کہ ’’ڈاکٹرائن‘‘ بھی منظر عام پر آگیا۔ پتا چلا کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل باجوہ نے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کے ساتھ ایک ملاقات کی ہے اور ان کے ساتھ ملک میں امن وامان کی صورت حال، دہشت گردی کے خلاف فوج کے اقدامات اور دیگر داخلی امور پر بات چیت کی ہے۔ یہ بات چیت چوں کہ آف دی ریکارڈ تھی اس لیے یہ ذرائع ابلاغ میں اس طرح رپورٹ نہیں ہوئی جس طرح ہونی چاہیے تھی۔ البتہ اس بات چیت کی روشنی میں جنرل باجوہ کے خیالات کو ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ کا نام دیا گیا اور اس پر تجزیہ کاروں نے خوب قیاس کے گھوڑے دوڑائے۔ ایک بقراط نے بیانیہ اور ڈاکٹرئن کا موازنہ کرتے ہوئے ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ بیانیہ تو سیاستدان یا سیاسی جماعتیں پیش کرتی ہیں جو اپنا موقف بیان کرکے عوام کو اپنا ہمنوا بناتی ہیں، پھر انتخابات کے ذریعے عوام کی حمایت حاصل کرکے تخت اقتدار پر بیٹھتی ہیں۔ سیاستدان عوام میں مقبول ہوجائے تو پھر اسے اقتدار میں آنے سے کوئی نہیں روک سکتا، جب کہ ڈاکٹرائن میں قوت کا نشہ جھلکتا ہے اور اس سے تحکم کی بُو آتی ہے۔ بقراطِ عصر نے بیانیہ اور ڈاکٹرائن کے موازنے میں ہم پر یہ واضح کیا کہ میاں نواز شریف کے بیانیے اور جنرل باجوہ کے ڈاکٹرائن میں تضاد ممکن نہیں ہے میاں نواز شریف ووٹ کو تقدس دینے کی بات کررہے ہیں جب کہ باجوہ ڈاکٹرائن کا سارا زور امن وامان اور خرابیوں کی اصلاح پر ہے۔ میاں نواز شریف کا بیانیہ یہ ہے کہ جب عوام کسی فرد یا سیاسی جماعت کو ووٹ دے کر اسے عوامی نمائندگی کے حق سے سرفراز کرتے ہیں تو اسے کانٹوں میں نہ گھسیٹا جائے اور اسے مقررہ مدت تک بلا روک ٹوک حکومت کرنے کا موقع دیا جائے جب کہ ’’باجوہ ڈاکٹرائن‘‘ یہ کہتا ہے کہ ملک میں امن وامان کو اولین اہمیت حاصل ہے اگر ملک لاقانونیت اور افراتفری کا شکار رہے گا تو پھر کیسی حکومت اور کہاں کے حکمران؟ ۔
ہمارے دوست کہتے ہیں کہ بیانیہ اور ڈاکٹرائن کا جھگڑا اپنی جگہ لیکن بیانیہ صرف میاں نواز شریف ہی کا کیوں؟ ان کے حریف سیاستدان جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ بھی ان کا بیانیہ ہی تو ہے۔ عمران خان شریف فیملی پر ملک کی دولت لوٹنے اور اسے ناجائز طور پر بیرون ملک لے جانے اور وہاں جائدادیں بنانے کا الزام لگا رہے ہیں اور یہی مقدمہ اِن دنوں احتساب عدالت میں بھی زیر سماعت ہے۔ آصف زرداری شریف فیملی پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور ’’میثاق جمہوریت‘‘ سے بے وفائی کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔ محترم سراج الحق کا کہنا ہے کہ محض چند افراد کا احتساب کیوں؟ احتساب بے لوگ اور بلاامتیاز ان سب لوگوں کا ہونا چاہیے جو ملک کی دولت لوٹنے اور اسے بیرون ملک لے جانے کے مجرم ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاناما لیکس میں جن چار سو پاکستانیوں کے نام آئے ہیں ان سب کو احتساب کے شکنجے میں کسا جانا چاہیے۔ کیا یہ سب بیانیے توجہ کے مستحق نہیں؟ اب تو عدلیہ بھی نہایت مضبوط بیانیے کے ساتھ میدان عمل میں آگئی ہے۔ چیف جسٹس کہتے ہیں کہ اگر حکومت عوام کی فلاح وبہبود پر توجہ نہیں دیتی تو کیا عدلیہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہے اور انہیں انصاف فراہم نہ کرے۔ عوام کو انصاف کی فراہمی کا مطلب یہ ہے کہ ان کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ کیا جائے، انہیں تعلیم، صحت، پینے کا صاف پانی اور دیگر بنیادی سہولتیں میسر آئیں۔ چیف جسٹس کا موقف ہے کہ یہ سارے کام حکومت کے کرنے کے ہیں وہ نہیں کرے گی تو ہمیں مجبوراً آگے بڑھنا پڑے گا۔
دیکھا جائے تو بیانیہ ہو یا ڈاکٹرائن اگر ملک کی بہبود اور اس کی تعمیر و ترقی مقصود ہے تو ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہونا چاہیے، تضاد اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ملک کے بجائے ذاتی اَنا اور ذاتی مفاد درمیان میں حائل ہوجاتا ہے اور آدمی ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ کی گردان الاپنے لگتا ہے اور اس کا پورا بیانیہ اس کی ذات کے گرد گھومنے لگتا ہے۔ موجودہ صورت حال میں یہی کچھ ہورہا ہے۔