پاکستان میں ملالہ سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟

580

ان سوالات کا جواز یہ ہے کہ مغرب ہی نہیں ملالہ کے والد ضیا الدین صاحب بھی کافی ’’اسلام پسند‘‘ ہیں۔ اس کا اندازہ 31 مارچ 2018ء کے ’’دی نیوز‘‘ میں شائع ہونے والے انٹرویو کے ایک جواب سے بخوبی کیا جاسکتا ہے۔ ملالہ کے والد سے پوچھا گیا کہ آپ کے زمانے اور آج کے دور میں کیا آپ کیا فرق محسوس کرتے ہیں۔ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ملالہ کے والد نے جو کچھ کہا انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے۔ فرماتے ہیں۔
“There is huge differnce. When I was growing up as a child like her, we were reading ‘dineeyat’ which was about all faiths. After Zia came, it turned into Islamiyaat. Gradually radicalization grew as I grew older. We became less tolerant, less accommodating for difference of opinion and also we lost some peacefull regions in our country like Swat Valley. In my youth days, we could walk freely in the streets and mountains of Swat at midnight. It was the most peaceful place in the world. But later, when Malala was growing up in 2005, we lost that paradise.”
ملالہ کے والد صاحب فرمارہے ہیں کہ ہمارے زمانے میں ’’دینیات‘‘ پڑھائی جاتی تھی جو تمام عقاید یا مذاہب سے متعلق تھی۔ اس وقت تک سب کچھ ٹھیک تھا۔ پھر جنرل ضیا الحق آگئے اور انہوں نے دینیات کی جگہ ’’اسلامیات‘‘ پڑھانی شروع کردی اور اسلامیات کی وجہ سے شدت پسندی یا Radicalization پھیلی۔ عدم برداشت میں اضافہ ہوا اور ہم اختلاف رائے کو کم برداشت کرنے والے بن گئے۔ یعنی ملالہ کے والد کے مطابق ایک خرابی جنرل ضیا نے کی مگر ان سے بھی زیادہ بڑی خرابی ’’اسلامیات‘‘ تھی۔ یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام اور اسلامیات کی کھلی ’’توہین‘‘ ہے۔ بدقسمتی سے ’’پاکستان کی بیٹی‘‘ کے ’’پاکستانی والد‘‘ نے جو کچھ کہا ہے وہ خلاف ’’حقیقت‘‘ بھی ہے۔ ہندوستان میں دس بیس لاکھ نہیں 25 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر ہندوستان کے کسی اسکول، کسی کالج اور کسی یونیورسٹی میں انہیں اسلام یا اسلامیات نہیں پڑھائی جارہی۔ یورپ میں اب 5 کروڑ مسلمان آباد ہیں مگر یورپ کے کسی ملک کے کسی بھی اسکول، کالج یا یونیورسٹی میں مسلمانوں کے ’’Faith‘‘ کی تعلیم کا کوئی اہتمام نہیں کیا جارہا۔ امریکا میں بھی یہی صورت حال ہے۔ مگر ملالہ کے والد چاہتے ہیں کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ’’تمام طلبہ‘‘ کو بیک وقت اسلام، ہندوازم یا عیسائیت بدھ ازم اور سکھ ازم پڑھایا جائے۔ ان کی نظر میں یہ ’’دینیات‘‘ کی تعلیم ہوگی۔ مگر جو کام ساری دنیا میں نہیں ہورہا وہ پاکستان میں کیسے ہوگا؟ دوسری بات یہ کہ پاکستان میں ہندوؤں، عیسائیوں دیگر مذاہب کے ماننے والوں کی تعداد ہی کیا ہے؟ تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان چاہے بھی تو اس کے پاس دینیات کی تعلیم کے لیے وسائل نہیں ہیں۔ چوتھی بات یہ کہ جس طرح بھارت کے 25 کروڑ مسلمان اپنے بچوں کو اپنے گھروں میں مدارس میں اسلام سکھا رہے ہیں پاکستان کی اقلیتوں کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے گھروں اور مذہبی اسکولوں میں اپنے بچوں کو اپنا مذہب پڑھالیں۔ یہ ایک سفید اور تاریخی جھوٹ ہے کہ جنرل ضیا اور اسلامیات سے معاشرے میں شدت پسندی پیدا ہوئی۔ سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں دس سال تک جہاد ہوتا رہا مگر دس برسوں میں کبھی پاکستان میں مجاہدین نے ’’پٹاخہ‘‘
بھی نہ پھوڑا حالاں کہ افغانستان میں 15 لاکھ مسلمان شہید اور 15 لاکھ زخمی ہوچکے تھے۔ افغانستان سے سوویت یونین کے انخلا کے بعد پانچ سال تک افغانستان میں خانہ جنگی ہوتی رہی مگر کبھی اس خانہ جنگی کی آواز تک پاکستان میں نہ سنی گئی۔ پانچ سال تک طالبان افغانستان میں حکومت کرتے رہے مگر اس دوران بھی پاکستان میں شدت پسندی رپورٹ ہوئی، نہ خود کش حملے ہوئے، یہ مسئلہ اس وقت پیدا ہوا جب جنرل پرویز نے ایک ٹیلی فون کال پر اپنا قبلہ اپنے دوست اور اپنے دشمن بدلے۔ ملالہ کے والد کو اس بات کا تو بہت ’’ملال‘‘ ہے کہ سوات انتہا پسندوں کے قبضے میں چلا گیا، مگر ملک کا سب سے بڑا، سب سے جدید شہر اور پاکستان کی معاشی شہہ رگ کراچی 30 سال تک سیکولر ایم کیو ایم کے ہاتھوں یرغمال بنا رہا اس کا ماتم نہ امریکا کرتا ہے، نہ یورپ نہ جرنیل کرتے ہیں نہ سیکولر اور لبرل دانش ور اور صحافی۔ حالاں کہ الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے جبر اور مظالم کے مقابلے پر سوات کے انتہا پسندوں کا ’’جبر‘‘ اور ’’ظلم‘‘ بچوں کے کھیل سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ بہرحال ملالہ کے والد کے مذہبی خیالات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ملالہ کی کتاب میں رسول اکرمؐ کو صلی اللہ الہ وسلم کیوں نہیں کہا گیا تھا۔ ان حقائق کو دیکھ کر ’’اندھے‘‘ بھی یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتے کہ ملالہ مغرب کی کیا ہیں؟۔
ملالہ پاکستان آئیں تو میرشکیل الرحمن کے انگریزی اخبار دی نیوز نے ان کی آمد پر اداریہ لکھا۔ حالاں کہ اداریہ کسی اہم قومی یا بین الاقوامی معاملے پر لکھا جاتا ہے۔ دی نیوز میں ملالہ کے حوالے سے دو بڑے بڑے مضامین شائع ہوئے۔ ایک مضمون میں ڈاکٹر ناظر محمود نے فرمایا ’’پیاری ملالہ تم عظیم ہو، اس لیے نہیں کہ تمہیں گولی ماری گئی اور تم بچ گئیں بلکہ اس لیے کہ تم پاکستان کا نیا چہرہ ہو۔ وہ چہرہ جو افغانستان سے ارجنٹائن اور نیوزی لینڈ سے زمبابوے تک پہچانا جاتا ہے۔ تم اس ملک اس ملک کے مردوں، خواتین اور بچوں کی ’’امید‘‘ ہو‘‘۔ سوال یہ ہے کہ کیا صرف شہرت بھی کسی کی عظمت کا سبب ہوسکتی ہے؟ دوسری بات یہ کہ مغرب کی ایجنٹ پاکستان کا ’’نیا چہرہ‘‘ کیسے ہوسکتی ہے۔ تیسری بات یہ کہ پاکستان کے لوگوں کی اُمید ان کا خواب، ان کا دین، ان کی تہذیب اور ان کی تاریخ ہے۔ ان چیزوں کے مقابلے پر ملالہ کیا پوری دنیا کی بھی کوئی حیثیت نہیں۔ معروف سیکولر صحافی غازی صلاح الدین نے مارشل میک لوہن کے مشہور زمانہ فقرے Medium is the message سے استفادہ کرتے ہوئے Malala is the message کے عنوان سے کالم ٹھونکا۔ اتفاق سے ہم بھی مغرب کے تناظر میں ملالہ کے حوالے سے یہی کہہ رہے ہیں۔ Malala is the message۔ غازی صلاح الدین نے اپنے کالم میں لکھا کہ ایک تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ پاکستان میں Face book page پر 60 فی صد لوگ ملالہ کو ناپسند کرتے ہیں اور 40 فی صد پسند فرماتے ہیں۔ غازی صلاح الدین آئے دن جمہوریت جمہوریت کرتے ہیں۔ اسی تناظر میں انہیں ملالہ کے سلسلے میں ’’اکثریت کی رائے‘‘ کا احترام کرتے ہوئے تسلیم کرلینا چاہیے کہ ملالہ واقعتاً مغرب کی ایجنٹ ہیں اور صرف اسی لیے پاکستانی عوام کی عظیم اکثریت انہیں سخت پسند کرتی ہے۔ مگر اس ضمن میں غازی صلاح الدین نے جمہوریت پر تھوک دیا ہے اور فرمایا ہے کہ ہمیں اس صورت حال کو بدلنا ہوگا۔ یعنی پاکستانیوں کی اکثریت کو ملالہ کا عاشق بنانا ہوگا۔ تجزیہ کیا جائے تو غازی صاحب کے تجزیے سے بھی مغرب اور اس کے ایجنٹوں کی اسلام دشمنی، جمہوریت پسندی اور ان کی سیاست ظاہر ہورہی ہے۔ اب آپ سمجھے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ملالہ سے نفرت کیوں کی جاتی ہے؟۔