مکمل ملاقات کی ادھوری کہانی

423

مشیر قومی سلامتی جنرل ناصر جنجوعہ نے اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر اجے بساریا سے یوں بے سبب ملاقات نہیں کی اس کے پیچھے ایک دباؤ ہے۔ پاکستان اب امریکی دباؤ سے آزاد ہوتا جا رہا ہے جب کہ اب امریکا کا دباؤ سہنے اور سامنا کرنے کی بھارت کی باری ہے جو امریکا کے کندھوں پر سوار ہو کر اپنا قد چین کے برابر کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ بھلا امریکا کوئی پاکستان ہے جو کسی کو بے قیمت اپنا کندھا فراہم کرے۔ امریکا اپنے کندھے کی کچھ نہ کچھ قیمت وصول کرہی لیتا ہے۔ اس ملاقات سے پہلے امریکا کی پرنسپل ڈپٹی اسسٹنٹ سیکرٹری ایلس ویلز جی ایچ کیو راولپنڈی کا دورہ کر چکی تھیں جہاں انہوں نے آرمی چیف جنرل قمر جاویدباجوہ سے خصوصی ملاقات کی تھی۔ جس کے بعد ایلس ویلز نے بھارت کا تین روزہ دورہ کیا اور ان کے ان دوروں کا مقصد پاکستان اور بھارت کو کشمیر پر مذاکرات پر آمادہ کرنا تھا۔ اس کے بعد امریکا اور پاکستان نے جماعت الدعوۃ کے سیاسی ایڈیشن ملی مسلم لیگ کے خلاف کچھ اقدامات کرکے بھارت کو مذاکرات کی راہ پر پہلا قدم بڑھانے کی ’’فیس سیونگ‘‘ دی۔ ایلس ویلز کے ان دوروں کو بنیاد بنا کر بھارت کے سابق سفیر کئی کتابوں کے مصنف اور تجزیہ نگار ایم کے بہادرا کمار نے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ کشمیر میں بات چیت کے سوا کیا متبادل ہے۔ کشمیر کا بحران گہرا ہو رہا ہے کشمیر کے زخم تقاضا کرتے ہیں کہ بات چیت شروع کی جائے۔ مضمون نگار لکھتے ہیں کہ امریکا کی بھی خواہش ہے کہ بھارت پاکستان سے کشمیر پر مذاکرات کرے۔ مضمون نگار نے اس کے لیے ایرانی انقلاب کے بانی امام آیت اللہ خمینی کے ایک قول کا حوالہ دیا ہے جو انہوں نے عراق کے ساتھ آٹھ سالہ جنگ کے اختتام پر معاہدے کے حوالے سے کہا تھا۔ امام خمینی کا کہنا تھا کہ قوموں کی زندگی میں کبھی ایسے لمحات آتے ہیں جب زہر کا جام پینا پڑتا ہے۔ گویا کہ مضمون نگار پاکستان سے کشمیر پر مذاکرات شروع کرنے کو زہر کا پیالہ پینے کے مترادف قرار دے رہے ہیں، کڑوا مگر ناگزیر۔ مضمون نگار نے یہ تو نہیں لکھا کہ اس کی وجہ امریکا کی یہ مجبوری ہے کہ اسے افغانستان میں قیام امن کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اور پاکستان مسئلہ کشمیر پر اب ٹھوس پیش رفت چاہتا ہے۔
اس ماحول میں بھارت کے سابق سفیر جنرل ناصر جنجوعہ کی بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات ہوئی۔ ملاقات کی میڈیا میں آنے والی تفصیل کے مطابق ناصر جنجوعہ نے بھارتی ہائی کمشنر سے کنٹرول لائن اور مقبوضہ کشمیر کی صورت حال پر بات کی۔ جس کے بعد مشیر قومی سلامتی کے حوالے سے یہ بات سامنے آئی کہ مقبوضہ کشمیر میں تشدد سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ ان کا یہ مشورہ ہر بندوق بردار کے لیے ہے وہ فوجی ہو یا سویلین۔ یہ کشمیری حریت پسندوں کے لیے بھی ہو سکتا ہے اور بھارتی فوجیوں کے لیے بھی۔ مشیر قومی سلامتی کی بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات پر پہلا اعتراض حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے راہنما چودھری نثار علی خان کی طرف سے سامنے آیا۔ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ مقبوضہ کشمیر میں روا رکھی جانے والی بھارتی دہشت گردی کے ماحول میں یہ ملاقات سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہم خون میں لت پت کشمیریوں کو ان ملاقاتوں سے کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ جب تک ہماری پالیسی اور عمل میں یہ تضاد اور ابہام دور نہیں ہوں گے تو کشمیریوں کی مدد کا دعویٰ محض دکھلاوا ہوگا۔
یہ ملاقات ایک ایسے ماحول میں ہوئی جب مقبوضہ کشمیر لہو لہان ہے۔ ایک دن میں سترہ افراد کی شہادت نے کشمیر کو ایک قتل گاہ بنا ڈالا ہے۔ گھر گھر ماتمی بین ہو رہے ہیں اور ہڑتالوں کے باعث کاروبار حیات معطل ہوکر رہ گیا ہے۔ عالمی سطح پر بے حسی کے باجود مقبوضہ کشمیر کے حالات کی گونج کئی ملکوں میں سنائی دے رہی ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیوگوئٹرس نے بھی کہا ہے کہ معصوم افراد کو تصادم میں نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔ حکومت پاکستان نے بھی اس تناظر میں اپنی سرگرمیوں میں تیزی لانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایسے میں مشیر قومی سلامتی کی بھارتی ہائی کمشنر سے ملاقات پر چودھری نثار علی خان کا اعتراض خاصی معنویت کا حامل ہے۔
مشیر قومی سلامتی بھارت کے ساتھ ٹریک ٹو ڈپلومیسی میں شامل ہیں۔ ظاہر ہے کہ وہ اپنی سرگرمیاں حکومتی احکامات کے تحت ہی جاری رکھے ہوئے ہوں گے۔ مشیر قومی سلامتی نے بھارتی سفیر کو یہ بتایا ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں مگر یہ سوال اپنی جگہ ہے کہ کیا بھارت ان مشوروں کو پرکاہ برابر اہمیت دینے پر آمادہ ہوا ہے؟۔ سردست اس کا جواب نفی میں ہے۔ اس ملاقات کے بعد دفتر خارجہ کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ پاکستان نے بھارت سے جامع مذاکرات سے کبھی انکار نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ کون کہتا ہے کہ پاکستان مذاکرات سے انکاری ہے؟۔ پاک بھارت معاملات اس وقت ’’ہم ہیں مشتاق اور وہ بیزار‘‘ والی صورت حال کا شکار ہیں۔ ہم ہر وقت ہر جگہ اور ہرموضوع پر بات چیت کے لیے تیار ہیں مگر یہ تو بھارت ہے جو پاکستان سے مذاکرات کرنے سے مسلسل انکاری ہے۔ اسلام آباد میں ہونے والی ملاقات عام حالات میں شاید قابل اعتراض نہ ہوتی لیکن مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے ظلم وستم کے ماحول میں یہ ملاقات قابل اعتراض ٹھیری ہے۔ اس ملاقات میں اگر مشیر قومی سلامتی نے بھارتی ہائی کمشنر سے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے مظالم پر بات کی تھی تو اس کی تفصیل میڈیا پر جاری ہونی چاہیے تھی تاکہ مقبوضہ کشمیر کے عوام کے سامنے بھی حالات کی درست تصویر آتی۔ مبہم ملاقاتوں کی ادھوری تفصیلات پر سوال اُٹھنا تو فطری بات ہے۔