سرسید، پردہ اور تعلیم نسواں

494

سرسید کی نام نہاد ’’روشن خیالی‘‘ چوں کہ مشہور زمانہ ہے اس لیے جنوبی ایشیا بالخصوص پاکستان کے سیکولر اور لبرل حلقے موقع ملتے ہی یہ ثابت کرنے میں لگ جاتے ہیں کہ سرسید آزادی نسواں، تعلیم نسواں اور تحفظ حقوق نسواں کے بھی بڑے علمبردار تھے۔ اتفاق سے یہ تمام باتیں جھوٹ نہیں ’’سفید جھوٹ‘‘ کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اسی لیے کہ سرسید ہرگز آزادی نسواں، تعلیم نسواں اور جدید معنوں میں خواتین کے حقوق کے ہرگز ہرگز محافظ نہ تھے۔ مگر بدقسمتی سے پاکستان کے سیکولر اور لبرل افراد نے سفید جھوٹ کے ذریعے تاریخ کو مسخ کرنے کو اپنا ’’طبقاتی فرض‘‘ باور کرلیا ہے۔ چناں چہ وہ سرسید کو خواتین کے حوالے سے بھی ’’روشن خیال‘‘ ثابت کرنے پر تلے رہتے ہیں۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ سرسید کی دو سالہ تقریبات کے موقع پر جامعہ کراچی میں ایک کانفرنس ہوئی تو معروف سیکولر اور لبرل دانش ور ڈاکٹر جعفر احمد نے کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سرسید کو خواتین کی آزادی اور ترقی کا ترجمان اور پاسبان باور کرایا، لیکن سرسید کے ذہن میں مسلم خواتین کا کیا تصور تھا آئیے دیکھتے ہیں۔
یہ ایک سامنے کی بات ہے کہ سیکولر اور لبرل عناصر پردے کو ذہنی و علمی پسماندگی، جبر اور ماضی بعید کی یادگار باور کراتے ہیں۔ چوں کہ ہمارے سیکولر اور لبرل افراد اٹھتے بیٹھتے سرسید، سرسید کرتے رہتے ہیں اس لیے کچھ لوگ یہ خیال کرسکتے ہیں کہ سرسید بھی پردے کو اتنا ہی خوفناک اور دقیانوسی خیال کرتے ہوں گے جتنا خوفناک اور دقیانوسی ہمارے سیکولر اور لبرل خواتین و حضرات کرتے ہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ سرسید پردے کے نہیں سخت ترین پردے کے زبردست حامی اور وکیل تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے ایک جگہ لکھا ہے۔
’’ہمارے بعض عزیز، جن کو ہم لحمک لحمی کہہ سکتے ہیں، اور بعض ہمارے مخدوم، جن کو ہم فخر قوم کہہ سکتے ہیں، پردہ کے مخالف ہیں مگر ہم کو گو لوگ نئے فیشن کا سمجھیں مگر ہم تو اسی پرانے دقیانوسی، اگر فیشن کے نہیں تو، دقیانوسی مزاج کے تو ضرور ہیں اور اس لیے ہم اپنے مخدوموں کی رائے کے مخالف ہیں اور عورتوں کا پردہ، جو مسلمانوں میں رائج ہے، اس کو نہایت عمدہ سمجھتے ہیں۔ اس بات پر بحث کرنی کہ قرآن مجید سے پردہ مروجہ عورات اہل اسلام ثابت ہوتا ہے یا نہیں، محض فضول ہے کیوں کہ اگر مسلمان مرد اپنے افعال و عادات میں پابند شریعت اور تابع احکام قرآنی ہوتے تو اس وقت عورتوں کے پردہ کی بابت اس بات کی گفتگو کرنی کہ قرآن مجید سے مروجہ پردہ ثابت ہے یا نہیں، زیبا ہوتی۔ مگر جب ہمارے مردوں کی نسبت قرآن مجید کے کسی امر کے اتباع کی نسبت بحث نہیں کی جاتی تو عورتوں کے پردہ کی نسبت یہ بحث کرنی کہ قرآن مجید سے ثابت ہے یا نہیں، کیسی نازیبا معلوم ہوتی ہے۔
میں پردہ کی رسم کا متعدد وجوہ سے نہایت طرف دار ہوں، اور بالتخصیص ہندوستان میں۔ اس میں میرا کچھ اجتہاد نہیں ہے، نہ میں نے کبھی اس پر غور کیا مگر فقہائے اسلام کا یہ مسئلہ ہے کہ منہ اور ہاتھ پہونچے تک اور پاؤں ٹخنے تک ستر میں داخل نہیں ہیں۔ فقہائے متاخرین نے بسبب فسادات زمانہ منہ کو پردے میں داخل کیا ہے‘‘۔
(افکار سرسید از ضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 165)۔
آپ نے دیکھا سرسید ان اقتباسات میں پردے کے لیے زبردست حامی بن کر سامنے آئے ہیں۔ چہرے کا پردہ قرآن مجید سے ثابت نہیں مگر سرسید کو اس کی رتی برابر بھی فکر نہیں۔ سرسید نے کسی معاملے میں مفسرین اور علما کو گھاس نہیں ڈالی مگر پردے کے سلسلے میں وہ ان مفسرین اور علما کے ساتھ ہیں جنہوں نے قرآنی احکامات کی تاویل کرتے ہوئے چہرے کو بھی پردے میں شامل کیا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے پردے کے سلسلے میں سرسید کا رویہ ’’مذہبی‘‘ کم اور ’’قدامت پسندانہ‘‘ زیادہ ہے۔ مثلاً وہ کہیں یہ دلیل نہیں دیتے کہ پردہ قرآن کا حکم ہے اس لیے مسلم خواتین کو پردہ کرنا چاہیے۔ انہوں نے مذکورہ بالا اقتباس میں ایک جگہ کہا ہے کہ
’’میں پردے کی رسم کا متعدد وجوہ سے نہایت طرفدار ہوں اور باالتخصیص، ہندوستان میں‘‘۔
آپ ان دو سطور کو غور سے پڑھیں۔ سرسید نے پردے کو خدا کا حکم نہیں ’’رسم‘‘ کہا ہے۔ ظاہر ہے خدا کا حکم کوئی اور چیز ہے رسم کوئی اور شے۔ خدا کا حکم ’’فرض‘‘ ہے لیکن رسم کی پیروی فرض کیا ضروری بھی نہیں۔ اس لیے کہ رسم ایک رواجی چیز ہے اور ضروری نہیں کہ اس کا کوئی حقیقی مذہبی، تہذیبی یا تاریخی بنیاد بھی ہو۔ مگر سرسید کے نزدیک پردہ رسم ہونے کی وجہ سے اہم تھا خدا کا حکم ہونے کی وجہ سے نہیں۔ سرسید نے ان دو فقروں میں یہ بھی فرمایا ہے کہ وہ ہندوستان میں پردے کے بالتخصیص حامی ہیں۔ کیوں بھئی صرف ہندوستان میں کیوں پوری دنیا میں کیوں نہیں؟ کیا قرآن میں کہیں لکھا ہے کہ پردہ صرف ہندوستان کی خوتین کے لیے ہے؟ ظاہر ہے کہ قرآن و حدیث کا حکم پوری دنیا کے لیے ہے صرف ہندوستان کے لیے نہیں۔ مگر سرسید کو صرف ہندوستان کی خواتین کو پردے میں دیکھنے کی خواہش ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ہے مگر اس کے باوجود مسلمان اقلیت میں تھے۔ اب سرسید یہ کیسے برداشت کرسکتے تھے کہ حاکموں کی عورتیں غلاموں کے سامنے بے پردہ ہوں؟ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پردہ سرسید کے لیے ’’مذہب‘‘ کا نہیں ’’غیرت‘‘ کا مسئلہ تھا۔ یہ غیرت انہیں صرف ہندوؤں ہی کے سلسلے میں لاحق نہیں تھی۔ یہ غیرت انہیں اپنے آقاؤں یعنی انگریزوں کے سلسلے میں بھی لاحق تھی۔ چناں چہ سرسید کے ساتھ نواب محسن الملک نے ایک جگہ لکھا ہے کہ سرسید اپنی بہو بیٹیوں کا انگریز عورتوں سے ملنا جلنا بھی پسند نہیں کرتے تھے کیوں کہ اس سے بھی انہیں ’’بے پردگی‘‘ نمودار ہوتی ہوئی نظر آتی تھی۔ سرسید جب یہ کہتے ہیں کہ وہ بالتخصیص ہندوستان میں پردے کے حامی ہیں تو اس سے یہ خیال ذہن میں آتا ہے کہ سعودی عرب یا ترکی مسلم اکثریتی ملک میں پردے کی کوئی خاص ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ان ممالک میں تمام یا اکثر مرد مسلمان ہوں گے۔ سرسید نے مذکورہ بالا اقتباسات میں ایک جگہ یہ بھی کہا ہے کہ جب قرآن کے حوالے سے یہ بحث نہیں کی جاتی کہ مسلمان مرد قرآن کے حکم کا اتباع کرتے ہیں یا نہیں تو یہ بحث بھی فضول ہے کہ چہرے کا پردہ قرآن سے ثابت ہے یا نہیں۔ حالاں کہ قرآن کی پیروی کے حوالے سے مردوں اور عورتوں کے درمیان کوئی فرق نہیں۔ مرد قرآن کے حکم کی پیروی نہیں کرتے تو برا کرتے ہیں اور وہ خود اس کے ذمے دار ہوں گے لیکن اس سے خواتین کے لیے یہ ’’آسانی‘‘ پیدا نہیں ہوجاتی کہ وہ بھی مردوں کے طرز عمل کو بہانہ بنا کر قرآن کے حکم کو نظر انداز کردیں۔ بہرحال یہ تمام امور ظاہر کرتے ہیں کہ سرسید پردے کے زبردست حامی تھے یہاں تک کہ انہیں اس بات کی بھی پروا نہیں تھی کہ ’’روشن خیال‘‘ لوگ انہیں ’’دقیانوس‘‘ کہیں گے مگر سرسید نے پردے کی جو حمایت کی ہے اس کی جڑیں مذہب میں نہیں قدامت میں پیوست تھیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ سرسید کو ’’مرد‘‘ تو جدید ترین درکار تھے مگر وہ خواتین ’’قدیم ترین‘‘ چاہتے تھے۔ اس حوالے سے سرسید کے ’’سر‘‘ اور ’’سید‘‘ میں ایک پیکار برپا تھی۔ سرسید آخری وقت تک اس پیکار کو کسی ایک اصول کے تابع نہ کرسکے۔ اس اعتبار سے سرسید ہماری تاریخ میں دو نیم شخصیت یا Splilt Personality کی سب سے بڑی مثال ہیں۔ آج ہمارے ماحول میں جتنی دو نیم شخصیتیں ہیں وہ کسی نہ کسی اعتبار سے سرسید ہی کی اولاد معنوی ہیں۔ لیکن آئیے ایک نظر اس امر پر بھی ڈال لیں کہ سرسید خواتین کی تعلیم کے بارے میں کیا فرما گئے ہیں؟۔
خواتین کی تعلیم کے حوالے سے سرسید لکھتے ہیں۔
’’باوجود یکہ بہت سی باتوں میں میری طرف نئے خیالات منسوب ہوتے ہیں لیکن عورات کی تعلیم کی نسبت میرے وہی خیالات ہیں جو ہمارے قدیم بزرگوں کے تھے‘‘۔
’’میں اپنی قوم کی خاتونوں کی تعلیم سے بے پروا نہیں ہوں۔ میں دل سے ان کی ترقی تعلیم کا خواہاں ہوں۔ مجھ کو جہاں تک مخالفت ہے اس طریقہ سے ہے جس کے اختیار کرنے پر اس زمانہ کے کوتاہ اندیش مائل ہیں‘‘۔
’’عورتوں کو جس قسم کے علوم پڑھائے جانے کا خیال پیدا ہوا ہے اس کو بھی میں پسند نہیں کرتا کیوں کہ نہ وہ ہماری حالت کے مناسب ہیں اور نہ سیکڑوں برس تک ہماری عورتوں کو ان کی ضرورت ہے۔ بغیر معنی سمجھائے قرآن مجید پڑھانا، جس کو ایک حقارت سے دیکھا جاتا ہے، میری دانست میں کوئی ذریعہ اس سے زیادہ روحانی تربیت، روحانی نیکی اور توجہ ذات باری کے لیے نہیں ہوسکتا‘‘۔
’’میری یہ خواہش نہیں ہے کہ تم ان مقدس کتابوں کے بدلے جو تمہاری دادیاں اور نانیاں پڑھتی آئی ہیں، اس زمانہ کی مروجہ نامبارک کتابوں کا پڑھنا اختیار کرو جو اس زمانہ میں پھیلتی جاتی ہیں۔ سچی تعلیم نہایت عمدگی سے ان کتابوں سے حاصل ہوتی ہے جو تمہاری دادیاں نانیاں پڑھتی تھیں۔ جیسی وہ اس زمانہ میں مفید تھیں ویسی ہی اس زمانہ میں بھی مفید ہیں‘‘۔
(افکار سرسید ازضیا الدین لاہوری۔ صفحہ 210)۔
یہ سرسید کی تحریروں کے چار اقتباسات ہیں اور ان چاروں اقتباسات کے معنی عیاں ہیں۔ سرسید کہہ رہے ہیں خواتین کو نہ اسکول جانا چاہیے، نہ کالج میں قدم رکھنا چاہیے، نہ یونیورسٹی کی ہوا میں سانس لینا چاہیے۔ چناں چہ انہیں نہ ڈاکٹر بننا چاہیے، نہ انجینئرنگ پڑھنی چاہیے، نہ صحافت کے شعبے کی تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ یہاں تک وہ مسلمان مردوں کو جن ’’مبارک کتابوں‘‘ کو گھول کر پینے کی تاکید کرتے تھے وہ کتابیں خواتین کے حوالے سے اچانک ’’غیر مبارک‘‘ ہوگئیں۔ سرسید مسلم لڑکوں سے کہتے تھے اپنے پورے ماضی کو بھول جاؤ، یہ نہ دیکھو تمہارے باپ دادا کیا کرتے تھے وہ تو احمق تھے۔ تم انگریزوں اور فرانسیسیوں کو دیکھو اور ان کی طرح بننے کی کوشش کرو۔ مگر مسلم لڑکیوں کے لیے ان کا ’’مشورہ‘‘ یہ تھا کہ انہیں ’’نانیوں اور دادیوں‘‘ کی طرح بنو۔ تمہاری نانیاں اور دادیاں جو کتابیں پڑھتی تھیں بس وہ پڑھو۔ واہ سرسید واہ۔ آپ انسان تھے یا جادو گر۔ آپ کے یہاں ایک علم ایک جگہ ’’زہر‘‘ تھا۔ دوسری جگہ وہی علم ’’تریاق‘‘ تھا۔ ’’آب حیات‘‘ تھا۔ ایک جگہ ماضی ’’قیدخانہ‘‘ تھا۔ دوسری جگہ ماضی ’’قلعہ‘‘ تھا۔ ایک جگہ ماضی کی تقلید ’’گناہ‘‘ تھی۔ دوسری جگہ ماضی کی تقلید ’’کارِ ثواب‘‘ تھی۔
(جاری ہے)