الحمدللہ ہم سب مسلمان ہیں اور اسلام نے ہی حکم دیا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے رہو، یہی معاشرے کی نبض ہے جس سے زندگی کا پتا چلتا ہے، یہی حکم مجھے احساس دے رہا ہے کہ اس آگ سے جو ٹی وی کے ذریعے ہمارے گھروں میں داخل ہوگئی ہے۔ دکھایا جارہا ہے کہ اخلاقی جرائم بڑھ گئے ہیں، تقریباً ہر ڈراما گھما پھرا کر یہی دکھا رہا ہے، کیا ہم میں شعور و آگہی کی کمی ہوگئی ہے۔ ہر شخص خوفزدہ ہے، ٹی وی کیا کھلتا ہے لگتا ہے پینڈورا باکس کھول لیا، دنیا اتنی خیالی ہوگئی ہے کہ حقیقی وجود کھو گئے ہیں، کہیں جن بھوتوں کے چرچے ہورہے ہیں، کہیں سادھو سنتھ بابا بیٹھے ہیں۔ ’’ڈر سی جاتی ہے صلہ‘‘ ٹائٹل ہی خوفناک ہے، کہانی تو یقیناًایسی ہی ہوگی، پھر کردار سازی سونے پہ سہاگا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی قالب میں عیسائی معاشرتی روح اور ڈائیلاگ کسی تھرڈریٹ انگلش فلم کا چربہ، کیا پیغام ہے، جو بتانے والا بتارہا ہے اور دکھانے والا دکھا رہا ہے۔ اگر صلہ کی ماں کو دیکھیں تو خوف آتا ہے کہ ایک گھر کا احترام رشتوں کا مان، بڑے چھوٹے کی تمیز، خاندان کی بنیاد، محبت، خلوص، ادب، احترام وہ سب کچھ جو خاندان سے منسوب کیا جاتا ہے کہاں ہے؟ ہم اپنے بچوں کو کیا دکھائیں، کیا بتائیں، کیا سمجھائیں اور کتنے ہی کیا؟ کیا؟ کیا؟ ہیں جن کے بارے میں دماغ سوچ ہی نہیں سکتا۔ باپ اپنی ذمے داریوں سے فرار اور باقی خاندان اپنی ذمے داریوں سے بے نیاز۔ اگر آج ہماری معاشرت یہی ہے تو ہمیں اپنے آپ پر اناللہ واناالیہ راجعون پڑھ ہی لینا چاہیے۔
قاریہ، مہر کرن، تیموریہ