بروقت انصاف نہ ملنا بے انصافی ہی نہیں ’ظلم‘ بھی ہے

439

عدالتی نظام کی اصلاح کون کرے گا؟ کیا اسما نواب کی زندگی کے 20 برس کا مداوا ممکن ہے؟

وہ گرفتاری کے وقت 17 سال کی تھی اور اب رہائی کے وقت اس کی عمر 37 سال تھی۔ جی ہاں یہ اسما نواب کا ذکر ہے جو 20 برس جیل میں قید رہی ۔ یہ1999ء سے چلنے والا قتل کا مقدمہ تھا ۔ کراچی کے علاقے سعود آباد ملیر میں قتل ہونے والے ماں باپ اور ان کے بیٹے کے قتل کا مقدمہ ، جس میں ان ہی کی 17 سالہ بیٹی اسما نواب کو اس تہرے قتل کا ذمے دار قرار دیتے ہوئے گرفتار کر لیا گیا تھا۔ استغاثہ کا کہنا تھا کہ اسما نواب نے اپنے 3 ساتھیوں کی مدد سے اپنے والدین اور بھائی کو قتل کر دیا اور اس قتل کی وجہ والدین کی طرف سے اسما نواب کو شادی سے روکنا تھا۔ ملزمان نے قتل کے بعد واقعے کو ڈکیتی کا رنگ دیا تھا ۔
یہ تو استغاثہ کا کہنا تھا لیکن سپریم کورٹ کے جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے مقدمے کی سماعت کے دوران اقبالی بیان ریکارڈ کراتے ہوئے مجسٹریٹ کی جانب سے قانونی تقاضے پورے نہ کرنے پر حیرت کا اظہارکیا کہ ملزمان کے فنگر پرنٹس گرفتاری کے 2 روز بعد لیے گئے ۔پھر اقبالی بیان بھی ایک جیسے نہیں تھے۔ بیان ریکارڈ کرنے سے پہلے ملزمان کو نہیں بتایا گیا تھا کہ بیان ریکارڈ کرانے کے بعد انہیں پولیس کے حوالے نہیں جیل بھیجا جائے گا۔ لہٰذا یہ نکتہ سامنے آتا ہے کہ ملزمان کے بیانات دبائو کے تحت لیے گئے تھے، جن سے بعد میں ملزمان نے انکار کر دیا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ سے پہلے کی عدالتوں نے ان نکات کے بارے میں غور نہیں کیا تھا؟
ان نکات کے تحت سپریم کورٹ نے تینوں ملزمان کو کمزور شواہد کی بنا پر جیل سے 20 سال بعد رہائی کا حکم دیا۔
رہائی تو مل گئی لیکن اسما نواب کے جیل میں گزرے 20 برس کا حساب کون دے گا؟
کیا جوانی کے ان 20 برس کا کوئی متبادل ہے؟ کیا ان کا مداوا ہو پائے گا؟
ظاہر ہے کہ یہ نا ممکن ہے۔ پاکستان کے عدالتی نظام کی انتہائی سست رفتاری ایسے المیوں کو جنم دیتی ہے۔ اس کے ذمے دار ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ہیں اور تفتیش کرنے والے پولیس افسران بھی …کاش سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جہاں ملک کے دیگر معاملات پر توجہ دے رہے ہیں۔ وہاں اپنے عدالتی نظام کی اصلاح کی طرف بھی توجہ دیں کیونکہ انصاف اگر وقت پر نہ ملے تو یہ صرف بے انصافی ہی نہیں، ظلم بھی کہلائے گا۔

گھر میں منجمد وقت اسما کا منتظر تھا

20 سال بعد اسما نواب اپنے گھر میں داخل ہوئی تو وہاں وقت منجمد تھا گھڑی کی سوئیوں اور کلینڈر کے اوراق کی صورت میں۔ ان کے سوا گھر میں کچھ نہ تھا ۔ اسما کا کہنا تھا کہ وہ اپنے گھر کو بھرا ہوا چھوڑ کر گئی تھی لیکن اب وہاں کچھ نہ تھا۔ یہاں تک کہ ان کی اسناد اور خاندان کی تصاویر بھی نہیں تھی۔ سامان کہاں گیا؟ کون لے گیا؟ اس کا جواب پولیس ہی دے سکتی ہے کیونکہ واقعے کے بعد سے یہ گھر پولیس کی تحویل میں تھا ۔
اسما نے بتایا کہ اس دن وہ کالج سے اپنے داخلے کا فارم لے کر گھر آئی تو دروازہ کھلا ہوا تھا اور اندر ماں باپ اور بھائی کی لاشیں پڑی تھیں۔ دوسرے دن پولیس نے انہیںبیان کے لیے تھانے بلایا اور حراست میں لے لیا۔
اسما کہتی کے مطابق 20 سال میں جیل کے اندر کے رشتے باہر سے زیادہ مضبوط ہو جاتے ہیں۔میں جیل میں سب سے سینئر خاتون قیدی تھی۔ اس عرصے میں میں نے 7 سہیلیاں بنائیں جو کہ آہستہ آہستہ رہا ہو گئیں اور میں پھر اکیلی رہ گئی ۔
اسما نواب اپنی 20 سالہ قید کا ذمے دار معاشرے ، حکومت اور میڈیا کو سمجھتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ باتیں جو کبھی پوچھی ہی نہیں گئیں ۔ خبر میں انہیں بھی شامل کر لیا گیا۔ جس سے کیس بہت خراب ہوا تھا ۔
مستقبل میں اسما تعلیم حاصل کرنا چاہتی ہے اور ملازمت کی خواہش مند ہے لیکن ایک ایسی ملازمت، جس میں وہ ضرورت مند خواتین کے مقدمات میںا ن کی مددکر سکے۔