سب سے دلچسپ خاکہ خود فاروق عادل کا خاکہ ہے

1994

ہمارے عزیز دوست ۔۔۔ بلکہ ہر دل عزیز دوست ۔۔۔ فاروق عادل آج کل صدر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے معتمد ابلاغیات ہیں۔ ہمارے صدر صاحب جس دور میں اس منصب پر فائز ہوئے ہیں اس دور کے کچھ تقاضے ہیں اور اس منصب کی کچھ مصلحتیں ہیں۔ جہاں تک دور کے تقاضوں کا تعلق ہے تو یہ تقاضے غالباً سوداؔ کے دور سے چلے آرہے ہیں:
کہ یہ زمانہ ہے اِک طرح کا زیادہ نہ بول!
اور مصلحت کا تقاضا بھی یہی ہے۔ سو، صدرِ محترم کو سال میں دو چار بار ہی اپنے خیالات کے ابلاغیات کی حاجت پیش آتی ہے۔ اس دو چار بار کی حاجت روائی کے سوا۔۔۔ سال کے باقی ایام میں ۔۔۔ ہمارا خیال تھا کہ ۔۔۔ فاروق عادل صاحب کان پر قلم اور ہاتھ ہاتھ پر ہاتھ رکھے منتظرِ فردا اور فارغ بیٹھے رہا کرتے ہوں گے۔ مگر جب ان کی کتاب ’’جو صورت نظر آئی‘‘ ہمیں گھر بیٹھے اپنے ہاتھوں میں نظر آئی تب ہم نے جانا کہ یہ ’’جواں‘‘ بھی اُسی قبیلے کی آنکھ کا تاراہے کہ جس کا نعرہ ہے:
فارغ تو نہ بیٹھے گا محشر میں جنوں میرا
پس وہ فارغ نہ بیٹھے اور اُنہوں نے بیٹھے بیٹھے کوئی پینتیس شخصی خاکے لکھ ڈالے، جن میں صدر صاحب کا خاکہ شامل نہیں ہے۔۔۔ کہ اُن کا خاکہ ابھی ناتمام ہے شاید!
ان 35 خاکوں میں اُن شخصیات کے خاکے بھی شامل ہیں جن سے فاروق عادل کا بہت میل جول رہا، اُن شخصیات کے بھی، جن کی فقط تھوڑی سی جھلک دیکھی اور ایک شخصیت ایسی بھی ہے جس کی شاید تصویر ہی دیکھی ہوگی، کیوں کہ فاروق عادل اتنے پرانے تو نہیں معلوم ہوتے کہ ان کی قائد اعظمؒ سے کوئی ملاقات ہوئی ہو۔ البتہ قائد اعظمؒ کا خاکہ اس لحاظ سے منفرد ہے کہ اس میں روایتی باتوں کے بجائے ایسی معلومات پیش کی گئی ہیں جو شاید اس سے پہلے کبھی کسی تحریر میں سامنے نہ آسکیں۔
فاروق عادل نے اپنی بھری پُری زنبیل میں سے جو چند خاکے نکال کر اس کتاب میں سمو دیے ہیں اُن میں (قومی اور بین الاقوامی) سیاسی شخصیات بھی ہیں، صحافتی شخصیات بھی ہیں، علمی اور ادبی شخصیات بھی ہیں، سماجی شخصیات بھی ہیں اور ایسی شخصیات بھی ہیں جو یوں تو غیر معروف ہیں مگر اُن کے کردار کا کوئی نہ کوئی ایک پہلو ایسا ہے جو دل میں تیر کی طرح ترازو ہو جاتا ہے۔ اصل شخصیات تویہی ہیں!
ہمیں فاروق عادل کے کالم پڑھ کر بھی یہی خیال آیا کرتا تھا کہ اس شخص کو ادب کی لازوال دُنیا کا باسی ہونا چاہیے تھا، یہ صاحبِ احساس قلم کارکہاں صحافیوں کے حلقۂ رائیگاں میں جا پھنسا؟ صحافیانہ اور کالمانہ تحریروں کی زندگی تو شاید دن بھر کی یا بہت سے بہت ہفتہ بھر کی ہوتی ہے۔ بلکہ روزنامے تو شام ہوتے ہوتے ردّی میں پہنچ جاتے ہیں۔ مگر اب جو یہ خاکے پڑھے تو اطمینان ہوا کہ فاروق عادل نے اپنی صحافتی ملاقاتوں اور اپنے ’خبر ساز مشاہدات‘ کو جس افسانوی زبان میں قاری کے سامنے پیش کیا ہے، اُس کے سبب متعدد افراد کو جریدہ عالم پر اپنا نام ثبت دیکھنے کا موقع مل گیا ہے، جن میں شیخ رشید احمد، حسین حقانی، مشاہد اللہ خان اور الطاف حسین بھی شامل ہیں۔ شیخ رشید کے خاکے میں وہ لکھتے ہیں:
’’۔۔۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ کالم لکھا کریں، وہ چونک پڑے اور پوچھا:
’’آپ یہ مشورہ مجھے کیوں دے رہے ہیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’اس لیے کہ عوام سے براہِ راست تعلق، جملے بازی کی ایک خاص صنف کے موجد اور خبر کے بیش تر سرچشموں سے قربت کی وجہ سے آپ کی تحریر میں جان پیدا ہو جائے گی اور ضرور پسند کی جائے گی‘‘۔ (’’کاریگر‘‘۔ ص: 144-143)
حسین حقانی کی بابت رقم طراز ہیں:
’’انہیں کوئی پرانا جاننے والا مل جائے یا کوئی بد بخت انہیں سعود آباد کی گلیاں اور راستے یاد دلانے کی کوشش کرے تو اُن کی ’’خودی‘‘ کو ٹھیس پہنچتی ہے اور وہ کڑک کر کہتے ہیں:
’’ابے احمقو! تم ابھی تک سعودآباد کی پلیا پر بیٹھے جوڑ توڑ کرتے ہو، دیکھتے نہیں میں کتنا آگے نکل چکا ہوں‘‘۔ (’’اسٹریٹ اسمارٹ۔ ص: 222)
مشاہد اللہ خان کے متعلق بتاتے ہیں:
’’۔۔۔ صلاح الدین صاحب نے انہیں ’’تکبیر‘‘ کا بزنس منیجر بنا دیا۔ اس زمانے میں ’’تکبیر‘‘ کا ماحول بڑا دلچسپ تھا۔ دفتر میں قہقہقوں، جملے بازی، اور گفتنی ناگفتنی لطیفوں کا شور بپا رہتا، مشاہد ان سرگرمیوں کی جان تھے۔ اس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ نہ وہ خود کام کرتے ہیں نہ کسی کو کرنے دیتے ہیں۔ خان صاحب نے اس تاثر کی کبھی تردید کی اور نہ اس کی ضرورت محسوس کی۔ حقیقت اس سے مختلف تھی۔ نہ جانے کیا سبب ہے کہ وہ آج بھی ویسے کے ویسے ہی ہیں‘‘۔ (’’بھائی جی‘‘۔ ص: 139)
الطاف حسین کی تعریف میں یوں رطب اللسان ہوئے:
’’روتوں کو ہنسانا اور ہنستوں کو رلانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ یہ خوبی بہت سے مقرروں میں ہوگی لیکن دورانِ تقریر دھاڑیں مار کر رونے کا جو ملکہ انہیں حاصل ہے، اس کی مثال شاید ہی ملے۔ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کے موقع پر ٹیلی وژن کیمرے پر ان کی رُونمائی یاد گار تھی۔ اس موقع پر انہوں نے اپنے جانے پہچانے انداز میں بس دو الفاظ ہی ادا کیے:
’’شہیدِ انقلاب‘‘
اس کے بعد انہوں نے دھاڑیں مار کر رونا اور ڈبہ ہاتھ میں لیے پاس کھڑے مستعد کارکن سے ٹشو پیپر لے کر آنسو پونچھنا شروع کر دیے‘‘۔ (’’عزیز آباد کا پیر‘‘۔ ص: 158-157)
اوپر دیے گئے اقتباسات میں آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ ہر شخصی خاکے کا فاروق عادل نے ایک عنوان دیا ہے۔ یہ عنوان غالباً اُس مجموعی تاثر پر مشتمل ہے جو فاروق نے اُس شخصیت سے خود لیا۔ مثلاً درویش (میاں طفیل محمد)۔ ستارہ شناس (پیر پگاڑا مرحوم)۔ ہر دل عزیز (پروفیسر غفور احمد)۔ دُکھیاری (بیگم نصرت بھٹو)۔ عملیت پسند (بے نظیر بھٹو)۔ مہم جُو (قاضی حسین احمد)۔ پروانہ (جاوید ہاشمی)۔ مردِ اوّل (آصف علی زرداری)۔ راہرو (جاوید احمد غامدی)۔ جانباز (محمد صلاح الدین)۔ جادو گر (الطاف حسن قریشی)۔ گرم دمِ جستجو (حکیم محمود احمد سروؔ سہارن پوری)۔ شاہین (ائر کموڈور ایم ایم عالم) اور خادمِ قرآن (سید ذاکر علی) وغیرہ وغیرہ۔
ان تمام خاکوں میں سب سے دلچسپ خاکہ خود فاروق عادل کا ہے، جو الگ سے نہیں لکھا گیا، تمام خاکوں میں منسلک ہے۔ ہر خاکہ پڑھتے ہوئے ہمیں خاکہ نگار کی شخصیت کے ایک نئے پہلو سے آگاہی ہوتی ہے۔ بہت سے خاکوں میں خاکہ نگار کے اپنے تعلیمی، صحافتی اور ادبی ارتقا سے متعلق معلومات بھی مل جاتی ہیں۔ یہ پتا چلتا ہے کہ خاکہ نگار کے والد (حکیم غلام حسین مرحوم) ایک طبیب، کثیر المطالعہ شخص اور راسخ العقیدہ مسلمان تھے۔ بھلا ہونہار پوت پر اپنے باپ کے اثرات کیوں نہ پڑتے؟۔